پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہریسہ کی مانگ سردیوں میں بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی اشیا سے جسم کو طاقت اور گرمائش ملنا بتائی جاتی ہے۔
لاہور کے قدیمی بازار گوالمنڈی میں ہریسہ کی بڑی بڑی دوکانیں ہیں جو قیام پاکستان کے بعد بھارتی شہر امرتسر سے یہاں منتقل ہوئیں۔
ہریسہ فروخت کرنے والے محمد شاہد کا کہنا ہے کہ ہریسہ عربی ڈش ہے جو ان کے بزرگ بھارتی شہر امرتسر میں فروخت کرتے تھے۔
’جب پاکستان بنا تو وہ ہجرت کر کے یہاں آئے اور یہاں بھی یہی ڈش متعارف کرائی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ہریسہ کی مانگ سردیوں میں زیادہ ہوتی ہے جبکہ گرمی کے موسم میں کام نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہریسہ تین قسم کا ہوتا ہے۔
’چکن، مٹن اور بیف سے بننے والی ہریسہ کی تین اقسام تیار کی جاتی ہیں جن میں دیسی گھی کا استعمال ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ہریسہ میں سرخ مرچ استعمال نہیں ہوتی بلکہ اس کی جگہ کالی مرچ ڈالی جاتی ہے اور
اس کا ضائقہ بھی منفرد ہوتا ہے۔
’اس میں دلیا بھی ڈلا جاتا ہے اور تیار کر کے برتنوں میں رکھا جاتا ہے، پھر تڑکا لگا کر گرم گرم فروخت ہوتا ہے۔