بلوچستان کے علاقے مچھ میں گذشتہ ہفتے قتل کیے جانے والے ہزارہ برادری کے کان کنوں کی تدفین کر دی گئی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان کوئٹہ پہنچ چکے ہیں۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق بلوچستان کے وزیراعلی جام کمال خان ، صوبائی وزراء اور دوسرے اعلی افسروں نے ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا ۔ کوئٹہ میں قیام کے دوران وہ مچھ کے المناک سانحے کے شہدا کے غمزدہ اہل خانہ سے ملاقات کریں گے۔
وزیراعظم اعلی سطح کے ایک اجلاس کی صدارت بھی کریں گے جس میں سانحہ مچھ کے بعد کی صورتحال اور صوبے میں امن وامان کی مجموعی صورتحال کاجائزہ لیاجائے گا ۔
وزیرداخلہ شیخ رشید احمد اور امور کشمیر وگلگت بلتستان کے وزیر علی امین گنڈا پور وزیراعظم کے ہمراہ ہیں۔
کل رات گئے حکومت کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے بعد لواحقین نے دھرنا ختم کرنے اور میتوں کو دفن کرنے کا اعلان کیا تھا۔
کوئٹہ سے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ہزار خان بلوچ کے مطابق ہزارہ برادری کے قتل کیے گئے کان کنوں کی نماز جنازہ کے موقع پر وفاقی وزرا اور صوبائی وزرا سمیت لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
کان کنوں کی میتوں کو گذشتہ شب دھرنے کے مقام سے ہزارہ ٹاؤن میں ولی عصر امام بارگاہ منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہیں۔
دوسری جانب اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم عمران خان قتل کان کنوں کے لواحقین سے ملاقات کے لیے کوئٹہ پہنچ چکے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے ہمراہ اسلام آباد کے نور خان ایئر بیس سے کوئٹہ گونر ہاؤس کے لیے روانہ ہوئے۔
خیال رہے کہ کان کنوں کے لواحقین نے لاشوں کے ہمراہ دھرنا دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان ان سے آ کر ملاقات کریں جس کے بعد ان کی جانب سے دھرنا ختم کیے جانے اور تدفین کا اعلان کرنے کے بعد عمران خان کوئٹہ جا رہے ہیں۔
سانحہء مچھ کے شھداء کی تدفین کر دی گئی، علی حیدر رضوی، زلفی بخاری کے ہمراہ نمازِ جنازہ میں شرکت کی، وزیراعظم عمران خان کوئٹہ کے لیے روانہ ہو گئے ہیں اور تدفین کے فوراً بعد شھداء کے لواحقین سے ملیں گے تعزیت و فاتحہ خوانی کریں گے ان کے غم میں شریک ہوں گے۔ #TogetherWeRise pic.twitter.com/wDcxCaY0Fm
— Qasim Khan Suri (@QasimKhanSuri) January 9, 2021
اس سے قبل گذشتہ شب دھرنا منتظمین کے ساتھ مذاکرات کے لیے آنے والے حکومتی ارکان میں وفاقی وزیر علی زیدی، وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال سمیت دیگر عہدیدار شامل تھے۔
دھرنے کے مقام سے حکومتی ارکان میں شامل وفاقی وزیر علی زیدی نے مذاکرات کے بعد دھرنے کے شرکا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شہدا کمیٹی کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلی مرتبہ حکومت کی جانب سے تحریر معاہدہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے وزیر داخلہ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بھی تشکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جن افسران کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا ان کے حوالے سے بھی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
علی زیدی نے بتایا کہ نادرا اور پاسپورٹ کے مسائل کو بھی حل کرنے کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جو مطالبات تسلیم کیے گئے ہیں ان کے مطابق مرنے والوں کے شرعی وارث کو سرکاری ملازمت دی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر دھرنا منتظمین نے دھرنا شرکا سے خطاب کرتے ہوئے پرامن انداز میں دھرنا ختم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ ان کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ واقعہ گذشتہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب مچھ کے علاقے میں پیش آیا تھا جس میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے دس کان کنوں قتل کر دیے گئے تھے جس کے بعد ان کے لواحقین اور ہزارہ برادری کا کوئٹہ شہر کے باہر مغربی بائی پاس پر شدید سردی میں دھرنا چھ روز تک جاری رہا۔
مظاہرین نے حکومت کے سامنے دس مطالبات رکھے تھے وہ چاہتے تھے کہ وزیر اعظم متاثرین سے ملنے آئیں ورنہ وہ میتوں کی تدفین نہیں کریں گے۔
تاہم جمعہ کی صبح وزیراعظم عمران خان نے سپیشل ٹیکنالوجی زون اتھارٹی کے اجرا کے موقعے پر ایک خطاب میں کہا تھا کہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں مارے جانے والے کان کنوں کے لواحقین ان کی تدفین کر دیں تو وہ آج ہی ان سے ملنے کوئٹہ چلے جائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس بیان پر ہزارہ برادری، اپوزیشن اور پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میتوں کی تدفین کے لیے وزیر اعظم کے آنے کی شرط رکھنا مناسب نہیں کیونکہ اس طرح ’ہر کوئی وزیر اعظم کو بلیک میل کرے گا۔‘
وفاقی وزیر علی زیدی نے وزیراعظم کے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان جس کے بارے میں بات کر رہے تھے وہ آئندہ دنوں میں معلوم ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کے ’عمران خان احساس رکھنے والے انسان ہیں مگر اب وہ صرف عمران خان نہیں بلکہ وزیراعظم ہیں۔‘