مچھ میں دس کان کنوں کے قتل پر کوئٹہ میں دھرنا دینے والے لواحقین اور ہزارہ برادری نے جمعرات کو آئی جی ایف سی بلوچستان کی فوری برطرفی سمیت دس مطالبات سامنے رکھے ہیں۔
مطالبات میں انسپکٹر جنرل آف فرنٹیئر، متعلقہ ڈی سی اور دیگر حکام کی ’مجرمانہ غفلت‘ پر برطرفی، ملزمان کی گرفتاری، سابقہ ادوار میں گرفتار ملزمان کو سخت سزا دینے اور مچھ واقعے پر جوڈیشل کمیشن کا قیام بھی شامل ہے۔
بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات قتل ہونے والے 10 افراد کی میتوں کے ہمراہ لواحقین اور ہزارہ برادری کا دھرنا کوئٹہ میں جمعرات کو پانچویں روز بھی جاری رہا۔ شہر میں انتہائی سخت سردی کے باوجود مظاہرین کی، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ کراچی اور اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں بھی دھرنے جاری ہیں۔
ادھر افغانستان کی حکومت نے پاکستان کو ایک خط میں لکھا ہے کہ مچھ میں قتل ہونے والے سات افراد کا تعلق افغانستان سے ہے اور حکومت پاکستان تین افراد کی میتیں افغانستان بھیجنے کے اقدامات کرے۔ کابل نے پاکستانی حکام سے میتوں کو براستہ چمن سپن بولدک منتقل کرنے کا کہا ہے ’تاکہ انہیں لواحقین کے حوالے کیا جا سکے۔‘
بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے ایک بیان میں قتل ہونے والے سات افراد کے افغان شہری ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت نے تین میتوں کو حوالے کرنے کی درخواست کی ہے، میتوں کے لواحقین نے افغان حکومت کو درخواست دی ہے۔ لیاقت شاہوانی نے مزید کہا کہ بلوچستان حکومت صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے، حکومت اپنے مینڈیٹ کے تحت کردار ادا کرے گی۔
آج دھرنے ختم ہونے کے حوالے سے کچھ ٹی وی چینلز پر خبریں چلیں کہ حکومت نے مظاہرین کے مطالبات تسلیم کرلیے ہیں، جس کے بعد دھرنا ختم کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ رپورٹس غلط ثابت ہوئیں کیونکہ مظاہرین وزیراعظم کے آنے اور اپنی داد رسی کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
مطالبات کیا ہیں؟
دھرنے کے منتظمین میں شامل حمیدہ فدا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مقتولین کے لواحقین نے 10 مطالبات سامنے رکھے ہیں جن میں انسپکٹر جنرل آف فرنٹیئر، متعلقہ ڈی سی اور دیگر حکام کی مجرمانہ غفلت پر برطرفی، ملزمان کی گرفتاری، سابقہ ادوار میں گرفتاری ملزمان کو سخت سزا دینے اور جوڈیشل کمیشن کا قیام شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ دیگر مطالبات میں کوئٹہ ۔ کراچی شاہراہ اور مائنز میں کان کنوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اور ہزارہ قوم کے بلاک شدہ شناختی کارڈ کی بحالی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پانچ روز گزرنے اور بڑی تعداد میں ہزارہ برادری کے دھرنے کے باوجود مطالبات کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ’ہمارا اہم مطالبہ وزیراعظم عمران سے ہے کہ وہ آکر ہماری داد رسی کریں، اس کے بغیر ہم یہاں سے اٹھنے والے نہیں۔‘
اس سے قبل پیر کو وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے دھرنے کے مقام پر پہنچ کر مظاہرین کو دھرنا ختم کرنے اور لاشوں کی تدفین پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام لوٹ گئے۔
جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے دو قریبی ساتھیوں وفاقی وزیر برائے میری ٹائم امور علی زیدی اور اوور سیز پاکستانیوں کے لیے خصوصی مشیر زلفی بخاری منگل کی رات کوئٹہ پہنچے۔ وہ بدھ کو وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ساتھ مظاہرین اور شیعہ عمائدین سے مذاکرات کرتے رہے۔
علی زیدی نے بدھ کو جام کمال اور زلفی بخاری کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں مظاہرین سے اپیل کی تھی کہ وہ لاشوں کی تدفین کے لیے وزیر اعظم کے آنے کی شرط نہ رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کوئٹہ ضرور آئیں گے لیکن لاشوں کی تدفین کو ان کے دورے سے منسلک نہ کیا جائے۔
بدھ کو وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر مظاہرین سے لاشوں کی تدفین کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جلد ہی ان سے ملنے کوئٹہ آئیں گے، تاہم انہوں نے اپنے دورے کے شیڈول کا اعلان نہیں کیا۔
مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کا دورہ
دوسری جانب پاکستان ڈٰیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی رہنما آج کوئٹہ پہنچے۔ ان رہنماؤں میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نوازشریف، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا غفورحیدری اور دیگر رہنما شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مریم نوازنے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر عمران خان کوئٹہ نہیں آسکتے تو پھر عوام انہیں اسلام آباد میں بھی بیٹھنے نہیں دیں گے۔’آپ (مظاہرین) پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس پر میں اپنے والد نواز شریف، شہباز شریف اور اپنی طرف سے دلی تعزیت کرتی ہوں۔ ہم پانچ دنوں سے یہ سب ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں آپ کی تکلیف کا احساس ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اپنی بات کہاں سے شروع کروں اور کن الفاظ میں اپنے دکھ اور غم کو بیان کروں کیونکہ جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔‘
موقعے پر موجود بلاول بھٹو، جن کے ہمراہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر پارٹی بھی تھے، خطاب کرتے ہوئے کہا ’جب بھی ہم بلوچستان کوئٹہ آتے ہیں خوشی سے نہیں آتے ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں لاش کو بھی احتجاج کرنا پڑتا ہے۔ ہم ایسے پاکستان میں رہتے ہیں جہاں سب کچھ مہنگا ہے لیکن عوام اور مزدور کا خون سستا ہے۔‘بلاول نے مزید کہا کہ ’ہمارے بڑوں کی حکومت میں بھی سو شہیدوں کے ساتھ احتجاج ہوا تھا۔ آپ نے اس وقت بھی اپنے مطالبات رکھے تھے، جس پر صوبائی حکومت کو بھی ہٹا دیا گیا تھا۔‘