سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان تیسرے ٹیسٹ کے تیسرے دن بھارتی تیز بولر محمد سراج اور جسپریت بمرا کوچند تماشائیوں کی جانب سے نسلی امتیاز پر مبنی جملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کھیل ختم ہونے کے بعد کپتان اجنکیا رہانے نے کافی دیر تک امپائروں سے بات کی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جس کے بعد میچ ریفری ڈیوڈ بون نے بھی بھارتی ٹیم سے ملاقات کی اور واقعے کی تفصیلات معلوم کیں۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ بھارتی ٹیم نے باقاعدہ کوئی تحریری احتجاج ریکارڈ کروایا ہے یا صرف زبانی شکایت کی ہے۔
کرکٹ آسٹریلیا اور بھارتی کرکٹ بورڈ نے ابھی تک اس واقعے پر کوئی بیان نہیں دیا ہے اور نہ ہی کسی انکوائری کا اعلان کیا ہے لیکن اس واقعے سے آسٹریلیا کے تماشائیوں میں نسلی منافرت کھل کر سامنے آگئی ہے جس کا آسٹریلوی حکومت ہمیشہ سے انکار کرتی ہے۔
آسٹریلین میڈیا نے اس واقعے کو شراب کے نشے میں مدہوش چند تماشائیوں کی حرکت قرار دیا ہے لیکن ابھی تک اس کی تحقیقات نہیں کی گئی ہیں۔
لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کرکٹ شریفوں کا کھیل نہیں رہا، لیکن اگر ماضی میں جھانکا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کرکٹ کا کھیل ہمیشہ ہی سے اسی قسم کے تنازعوں کی زد میں رہا ہے۔
کرکٹ میں تماشائیوں کی جانب سے قابل اعتراض جملوں اور نعروں کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ 2019 میں انگلینڈ کے نیوزی لینڈ کے دورے کے دوران انگلش کھلاڑی جوفرا آرچر بھی نسلی امتیاز پر مبنی جملوں کا نشانہ بنے تھے، تاہم کیوی بورڈ نے فوری طور پر تحقیقات کرکے ان لوگوں کے سٹیڈیم میں داخلے پر پابندی لگادی تھی جنھوں نے یہ جملے کسے تھے۔ نیوزی لینڈ بورڈ کے اس فوری اقدام کی ہر سطح پر پذیرائی کی گئی تھی۔
اس سے قبل بھی متعدد بار ایسے واقعات پیش آئے جب کھلاڑیوں کو فیلڈ میں نسلی امتیاز یا تضحیک آمیز جملے سننا پڑے جس پر کئی بار کھلاڑی مشتعل بھی ہو گئے۔
آسٹریلیا کے تماشائیوں سے وراٹ کوہلی کبھی بچ نہیں سکے ہیں اور ہمیشہ سخت جملوں کی زد پر رہتے ہیں۔ ایک میچ کے دوران جب انھیں مسلسل نشانہ بنایا جا رہا تھا تو انھوں نے ہاتھ کی درمیانی انگلی دکھائی تھی جس پر ان پر بہت تنقید ہوئی تھی لیکن کوہلی نے معذرت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
بھارتی تماشائیوں کا تضحیک آمیز جملے استعمال کرنے میں بہت برا ریکارڈ ہے۔ پاکستان کے ممتاز بلے باز انضمام الحق بھی ہمیشہ بھارتی تماشائیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
ایک بار وہ کینیڈا میں ہونے والے میچ کے دوران بھارتی تماشائی سے الجھ گئے تھے اور بیٹ لے کر اس کے پیچھے دوڑ پڑے تھے۔
گذشتہ ورلڈ کپ میں لارڈز میں بھارت آسٹریلیا میچ کے دوران جب سٹیو سمتھ پر فکسر کے جملے کسے جا رہے تھے تو بھارتی کپتان کوہلی نے مداخلت کی تھی اور بھارتی تماشائیوں کو ڈانٹا تھا کہ وہ ایسے جملوں سے باز رہیں۔
بھارتی تماشائیوں کے اس عمل کو نہیں بھلایا جا سکتا جب 1996 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں کلکتہ میں سری لنکا کے خلاف جب بھارت شکست کے قریب پہنچا تو اپنی ٹیم سے نالاں تماشائیوں نے سٹیڈیم ہی کو آگ لگا دی۔
بھارتی تماشائیوں نے اپنے کھلاڑیوں پر بھی اکثر حملے کیے ہیں۔ آئی پی ایل کے دوران جب رائل چیلنجرز بنگلور مسلسل ہار رہی تھی تو کچھ تماشائیوں نے وراٹ کوہلی پر سٹے کے جملے کسے جس پر کوہلی تماشائی سے جھگڑ پڑے تھے۔
اسی طرح روہت شرما بھی ایک بار سخت جملوں پر تماشائی سے لڑ پڑے تھے اور بیٹ اٹھا کر دوڑے تھے۔
انگلینڈ کے آل راؤنڈر بین سٹوکس کو بھی نسلی امتیاز پر مبنی جملوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکے تھے اور کہنے والے کے منہ پر دو چار مکے رسید کر گئے جس کی پاداش میں انھیں پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔
1980 میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ویسٹ انڈیز کے ایک فاسٹ بولر سلویسٹر کلارک ملتان ٹیسٹ میں تماشائیوں کی جانب سے تضحیک آمیز جملوں پر اس قدر غصہ ہوئے ایک تماشائی کو اینٹ اٹھا کر دے ماری۔ یہ اینٹ ایک نوجوان کے سر میں لگی جسے فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا ۔
ٹیسٹ ختم ہونے کے بعد کلارک ہسپتال میں اس نوجوان کی عیادت کے لیے گئے اور معذرت کی۔ تاہم ان کی معذرت کافی نہ رہی اور وہ اگلے چار میچوں کے لیے معطل کر دیے گئے۔ اس معطلی نے ان کا کیرئیر ختم کر دیا۔
تماشائیوں کے طرح کھلاڑیوں کے بھی آپس میں جھگڑوں کے واقعات سے کرکٹ کی تاریخ بھری ہوئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آسٹریلین کھلاڑیوں کے آن فیلڈ تلخ جملے اور طنز سے ساری ٹیمیں پریشان رہتی ہیں وہ سلیجنگ (طنزیہ فقرے) کے نام پر اس قدر واہیات زبان استعمال کرتے ہیں جس سے مخالف بلے باز طیش میں آ جاتے ہیں اور بعض اوقات فیلڈ سے باہر بھی یہ تپش برقرار رہتی ہے۔
2013 کی چیمپیئنز ٹرافی میں ڈیوڈ وارنر کی ایک بئیر بار میں انگلینڈ کے جو روٹ سے تلخ کلامی اس قدر بڑھ گئی کہ وارنر نے ایک دو مکے رسید کر دیے جس پر وارنز پر بقیہ تمام میچوں کے لیے پابندی لگا دی گئی۔
سری لنکا کے خلاف آسٹریلیا کے سابق فاسٹ بولر گلین میگرا نے جے سوریا کو ’بلیک منکی‘ کہہ کر پکارا تھا، جس کو روشن ماہنامہ نے سن لیا تھا تاہم میگرا کسی سزا سے بچ گئے تھے۔
1981 میں آسٹریلیا کے دورے پر جاوید میاں داد بیٹ لے کر ڈینس للی پر پل پڑے تھے کیونکہ ڈینس للی نے میاں داد کو نامناسب الفاظسے مخاطب کیا تھا، بعد میں جاوید میاں داد نے کینگروز کی طرح چھلانگیں لگا کر مزید مشتعل کر دیا تھا۔ یہ سیریز اپنی حدت اور تپشکے باعث خاصی متنازع رہی تھی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان میچوں میں درجۂ حرارت ہمیشہ شدید رہتا ہے۔
ایک میچ میں شاہد آفریدی پر بھارتی بلے باز گوتم گمبھیر نے بیٹ اٹھا لیا تھا اگر دوسرے کھلاڑی بیچ میں نہ آتے تو شاید دونوں ایکدوسرے کا سر پھاڑ دیتے۔
اسی طرح سارو گنگولی اور شعیب اختر بھی ایک بار آپس میں الجھ پڑے تھے۔
انگلستان کے شائقین ہمیشہ سے مہذب سمجھے جاتے ہیں، لیکن ایشز سیریز میں سارے بند ٹوٹ جاتے ہیں جب انگریز تماشائی آسٹریلین کھلاڑیوں کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
ماضی میں متعدد بار دونوں ملکوں کے شائقین اس قدر مشتعل ہو گئے کہ پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔
کرکٹ کمنٹیٹر بھی بعض اوقات ایسے جملے استعمال کرجاتے ہیں جو بعد میں ان کے لیے مصیبت کا باعث بن جاتے ہیں
ڈین جونز نے ایک بار کمنٹری کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کے ہاشم آملا کو ان کی داڑھی کے سبب دہشت گرد کہہ دیا تھا اگرچہ ڈین جونز نے مزاح پیدا کرنے کے لیے کہا تھا لیکن اپنے اس مزاح کی سزا یوں بھگتی کہ براڈ کاسٹر نے کمنٹری کا معاہدہ منسوخ کر دیا۔
کرکٹ کے میدان میں تنازعات کی فہرست میں نیوزی لینڈ ٹیم سب سے نچلے درجہ پر نظر آتی ہے جس کے میدان میں اور میدان سے باہر بہت کم واقعات نظر آتے ہیں اور اگر کبھی کوئی واقعہ پیش آ بھی جائے تو اس کا فوری سدباب کیا جاتا ہے۔
حالیہ سڈنی گراؤنڈ میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد ایک بار پھر یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کرکٹ جسے جنٹلمین گیم کہا جاتا ہے کیا اس میں سے شرافت اٹھ گئی ہے؟
کھیل کی روح اور اس کی سلامتی کے لیے کرکٹ کی عالمی تنظیم نے بہت سارے قوانین بھی بنائے ہیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے کمیٹیاں بھی، لیکن ایسے واقعات کا تسلسل سے ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ کرکٹ کے کھلاڑی ہوں یا شائقین، دونوں نہ تو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور نہ کسی ایسے واقعے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محمد سراج کے ساتھ پیش آنے والا حالیہ واقعہ ایک مہذب ترین ملک آسٹریلیا میں ہوا ہے۔ نسلی امتیاز جملوں پر متعلقہ کرکٹ بورڈ کی خاموشی سے شاید یہ واقعہ زیر زمین چلا جائے لیکن اس خاموشی سے ان عناصر کو ضرور تقویت ملے گی جو پہلے ہی کرکٹ کو ایک ایسی تماشگاہ بنانا چاہتے ہیں جہاں روز کچھ نہ کچھ ہوتا رہے اور تماشا لگا رہے۔