امریکہ میں اقتدار کی منتقلی: بین الافغان مذاکرات میں تعطل

قطر میں جاری بین الافغان مذاکرات کے بارے میں دونوں فریقین (طالبان اور کابل) کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتے جب تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ نئے امریکی صدر بائیڈن کی افغان پالیسی کیا ہے۔

(اے ایف پی فائل فوٹو)

قطر میں جاری انٹرا افغان مذاکرات کے بارے میں دونوں فریقین (طالبان اور کابل) کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتے جب تک انہیں معلوم نہیں ہو جاتا کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن افغانستان سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلا کے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کی حمایت کریں گے یا نہیں۔

بدھ کو دونوں فریقوں کے ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ پانچ جنوری سے طالبان اور کابل حکومت کے درمیان بحال ہونے والی بات چیت ایک بار پھر جمود کا شکار ہو چکی ہے کیوں کہ دونوں کو ہی جو بائیڈن کی پالیسی کا انتظار ہے۔

یہ نئی رکاوٹ ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب ایک ماہ کے وقفے کے بعد دونوں اطراف کے کچھ مذاکرات کار ابھی قطر کے دارالحکومت دوحہ واپس بھی نہیں لوٹے تھے۔ کابل میں ایک سفارتی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ نو منتخب صدر بائیڈن کی جانب سے 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے مذاکرات میں پیش رفت کی کم ہی توقعات ہیں۔

انہوں نے کہا: ’دونوں فریقین 20 جنوری سے پہلے کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنا نہیں چاہتے۔ وہ اس دوران مذاکراتی عمل کو اسی طرح جاری رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ بین الاقوامی برادری کی ایک ضرورت ہے لیکن یہ واضح ہے کہ بائیڈن کے حلف لینے سے قبل مذاکرات جمود کا شکار رہیں گے۔‘

گذشتہ سال ٹرمپ انتظامیہ نے آنے والے چند مہینوں کے دوران افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے لیے طالبان سے امن معاہدہ کیا تھا لیکن اس کا انحصار طالبان کی سکیورٹی گارنٹی پر تھا، جس کے بارے میں افغان حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان نے اسے پورا نہیں کیا۔

بائیڈن اور ان کے مشیروں نے ابھی تک افغان پالیسی کے حوالے سے کھل کر بات نہیں کی لیکن اس بارے میں کچھ اشارے ضرور دیے ہیں۔

'مشکل فیصلے'

ایک طالبان مذاکرات کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم نئی امریکی انتظامیہ اور افغانستان کے بارے میں ان کی پالیسیوں کا انتظار کر رہے ہیں اور یہ کہ آیا وہ طالبان کے ساتھ طے پائے گئے امن معاہدے کی پاسداری کریں گے یا نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اگر امریکہ فوج کے انخلا کے حوالے سے اپنے عہد کو پورا نہیں کرتا تو پھر ہمیں سخت گیر طالبان رہنماؤں کو میدان میں تعینات کرنے جیسے مشکل فیصلوں کی ضرورت پیش آئے گی۔‘ مہینوں کی محنت کے بعد مذاکرات میں کم ہی پیش رفت ہوئی ہے لیکن اب بحالی کے بعد ان میں ایک بار پھر جمود سے یہ عمل مزید سست روی کا شکار ہو جائے گا۔

فریقین نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ ہفتے کو دوبارہ مذاکرات کا آغاز کریں گے لیکن حکومت اور طالبان کے تین ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ اب تک ’کنٹیکٹ گروپس‘ کے نام سے چھوٹی ٹیموں کے مابین صرف محدود ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے تقریباً چار اعلیٰ سطحی ارکان ابھی تک قطر نہیں پہنچے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ دور دراز علاقوں سے سفر کرنے جیسے مسائل اس کی وجہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اگلے چند روز میں دوحہ پہنچ جائیں گے اور یہ کہ تاخیر سے مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ افغان حکومت کے کچھ مذاکرات بھی دوحہ میں موجود نہیں۔ کینسر کا علاج کروانے والی حکومتی ٹیم کی ایک رکن نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ اسی ہفتے قطر پہنچ جائیں گی۔

اوورسیز ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ایشلے جیکسن نے کہا کہ طالبان کی طرف سے تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اپنے گروپ کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے طالبان مذاکرات کاروں کو زیادہ وقت درکار ہے۔

انہوں نے کہا: ’تاخیر کے حوالے سے صورت حال ابھی تک مکمل طور پر واضح نہیں لیکن بڑھتی ہوئی قیاس آرائیوں کے ساتھ یہ صورت حال کسی طرح کی وضاحت کے بغیر زیادہ وقت تک نہیں چل سکتی۔ تاخیر سے ظاہر ہے کہ پیش رفت میں موجودہ سست روی برقرار ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا