چپکنے والے بم: افغانستان میں خوف کی نئی علامت

سینیئر سکیورٹی عہدیداروں اور مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی اس نئی حکمت عملی کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا اور بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنا ہے۔

4 اگست 2019 کی اس تصویر میں  دارالحکومت کابل میں افغان سکیورٹی اہلکار خورشید ٹی وی کے ملازمین کو لے جانے والی بس  کا جائزہ لے رہے ہیں، جسے چپکنے والے بم  کا نشانہ بنایا گیا اور  جس کے نتیجے میں دو  افراد ہلاک ہوگئے تھے (تصویر: اے ایف پی)

افغانستان میں گاڑیوں کے نیچے نصب ہونے والے چھوٹے مقناطیسی یا چپکنے والے بموں (Sticky Bombs) کا استعمال بڑھ رہا ہے جس سے سرکاری افسران، سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ وہ شخصیات ہیں جو امن مذاکرات کے باوجود طالبان کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں کم از کم 10 سرکاری اہلکار اور ان کے معاونین ان ’چپکنے والے بموں‘ سے ہلاک ہو چکے ہیں، یہ حملے زیادہ تر دارالحکومت کابل میں کیے گئے۔

سینیئر سکیورٹی عہدیداروں اور مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اس نئی حکمت عملی کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا اور بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنا ہے۔

افغانستان میں خدمات انجام دینے والے ایک سینیئر مغربی سفارت کار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’داخلی انٹیلی جنس میموز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طالبان درمیانی سطح کے سرکاری عہدیداروں اور دیگر ممتاز شخصیات، جو ان کے سخت گیر موقف کے خلاف ہیں، کو منظم طریقے سے ختم کررہے ہیں۔‘

سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ ’عسکریت پسند حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو اس لیے نشانہ نہیں بنا رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ بڑے پیمانے پر سامنے آنے والے ردعمل کے متحمل نہیں ہوسکتے، جس کا اثر قطر میں جاری امن مذاکرات پر بھی پڑ سکتا ہے۔‘

دوسری جانب طالبان کے ایک ترجمان نے بتایا کہ کچھ حملوں میں ان ہی کے گروپ کا ہاتھ تھا لیکن انہوں نے صرف حکومت کے اہلکاروں کو ہی نشانہ بنایا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا مزید کہنا تھا: ’ہم دشمن کو نشانہ بناتے رہیں گے اور اہم حکومتی شخصیات کو ہلاک کرنا جاری رکھیں گے لیکن صحافیوں یا سماجی کارکنوں کی ہلاکت میں ہمارا ہاتھ نہیں ہے۔‘

’ہم ان لوگوں پر براہ راست حملہ کر رہے ہیں جو میدان جنگ میں ہمارے خلاف لڑ رہے ہیں یا اپنے سرکاری دفاتر سے ہمارے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔‘

تاہم افغان وزارت داخلہ نے تمام چپکنے والے بم حملوں کا ذمہ دار طالبان کو قرار دیا ہے۔

آٹھ سینیئر افغان سرکاری عہدیداروں، تین مقامی صحافیوں اور کابل میں دو خواتین پروفیسرز نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں اپنے مواصلات کے ذرائع کو تبدیل کیا ہے اور اب وہ کام پر جانے کے لیے باقاعدگی سے راستہ تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔

طالبان نے کئی صوبوں میں سرکاری فوج کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے بھی تیز کردیے ہیں۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رواں برس فروری میں امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ہونے والے امن مذاکرات کے باوجود افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد سے اس ملک میں برسوں سے جاری جنگ کے خاتمے کی امیدیں مانند پڑ رہی ہیں۔

مذکورہ سفارت کار نے کہا: ’ان مذاکرات کے باوجود عسکریت پسند ملک میں زبردست خوف پھیلا کر اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔‘

چپکنے والے بم ہیں کیا؟

افغانستان میں استعمال ہونے والے ان چھوٹے مقناطیسی بموں کو ریموٹ یا ٹائم فیوز کے ساتھ اڑایا جاسکتا ہے اور یہ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ کسی کار کے پرخچے اڑا دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنگ کے ابتدائی سالوں سے ہی استعمال ہونے والی یہ ڈیوائسز جدید یا خام شکل میں بھی ہوسکتی ہیں لیکن ان کو لگانا سستا اور آسان ہے جب کہ ان سے بچنا انتہائی مشکل ہے۔

حالیہ گرفتاریوں کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ سگنلز پر یا ٹریفک جام کے دوران موٹر سائیکل سوار یا پیدل حملہ آور آسانی سے مطلوبہ گاڑی میں یہ بم نصب کرسکتے ہیں۔

افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے ترجمان رحمت اللہ اندار نے کہا: ’زیادہ تر معاملات میں نوجوان تھوڑی سی رقم کے عوض مقناطیسی بموں کو چسپاں کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔‘

ڈائریکٹوریٹ کے ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ کووڈ 19 کی وجہ سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے طالبان کے لیے سڑکوں کے کنارے کار واشرز، چھوٹے دکانداروں اور بھکاریوں کی بھرتی کو آسان بنا دیا ہے۔

اگرچہ ان بموں کے حملے اِکا دُکا ہی پیش آتے ہیں لیکن ان کا نفسیاتی اثر وسیع پیمانے پر پڑتا ہے۔

وزارت قانون و انصاف کے افسر رحمت اللہ رحیم نے کہا: ’ناشتے کے بعد مجھے یہ سوچنے میں وقت لگتا ہے کہ مجھے زندہ رہنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس خوف کا احساس شدید ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا