'ہر ایک مہینے بعد جب بچیوں کو خون کی ضرورت ہوتی ہے تو میں ان کے لیے خون ڈھونڈنے نکل جاتا ہوں۔ جب تک ان کو خون نہ لگایا جائے گھر میں ایک ماتم کا سا سماں ہوتا ہے۔'
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے عالم خان کی دو بھتیجیاں تھیلیسیما کا شکار ہیں، جن کی عمریں 16 اور 14 سال ہیں۔ ان دونوں بچیوں کے لیے ہر مہینے خون کی ضرورت پوری کرنا عالم خان کی ذمہ داری ہے کیونکہ ان کے والد ملازمت کی غرض سے قطر میں مقیم ہیں۔
عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی ایک بھتیجی جب ایک سال کی تھیں تو ان کا رنگ زرد تھا۔ جب انہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو معلوم ہوا کہ ان کو تھیلیسیمیا کا مسئلہ ہے۔
ڈاکٹر نے عالم کو بچیوں کے والدین کا ٹیسٹ کروانے کو کہا اور اس حوالے سے ہسٹری بھی لے لی گئی کہ یہ شادی خاندان میں تو نہیں ہوئی ہے۔ عالم نے بتایا کہ ان بچیوں کے والدین آپس میں رشتہ دار ہیں، جس پر انہوں نے خاندان میں شادی کرنے سے قبل دلہا اور دلہن کا ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا۔
عالم نے بتایا: 'ہم نے پہلی بچی کا علاج شروع کیا اور ان کو خون لگواتے رہے، دو سال بعد ان کی بہن پیدا ہوئی اور ان میں بھی تھیلیسیمیا کی تشخیص ہوئی، تاہم اس کے بعد جو تیسرا بچہ پیدا ہوا، وہ اب نو سال کا ہے اور بالکل صحت مند ہے۔'
خون کے حصول میں مشکلات کے حوالے سے سوال کے جواب میں عالم نے بتایا کہ پہلے تو بہت زیادہ مسئلہ تھا اور عوام میں اتنی آگاہی نہیں تھی، لہذا وہ خون دینے سے کتراتے تھے لیکن اب عوام میں آگاہی آگئی ہے جبکہ خون عطیہ کرنے کے حوالے سے مختلف ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔
عالم اپنے بھتیجیوں کو ہر مہینے خون کی ایک ایک تھیلی خود لگاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: 'یہ نہیں کہ بس خون لگادیا، بلکہ اس کے ساتھ مختلف سائیڈ ایفیکٹس بھی ہوتے ہیں یعنی جسم پر دانے نکل آتے ہیں یا پیٹ خراب ہو جاتا ہے۔ جب تک بچیاں خون لگنے کے بعد نارمل نہیں ہوجاتیں، گھر میں ماتم کا سا سماں ہوتا ہے اور گھر کا ہر ایک فرد پریشان ہوتا ہے۔'
عالم اکیلے نہیں ہیں، جن کے خاندان کا کوئی بچہ تھیلیسیمیا کا شکار ہے بلکہ پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے تھیلیسیمیا کا شکار ہوتے ہیں۔ پشاور میں تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے علاج کے لیے قائم حمزہ فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال ملک میں پانچ سے چھ ہزار بچوں میں تھیلیسیمیا کی تشخیص ہوتی ہے۔
تقریباً 1400 تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کا علاج کرنے والے حمزہ فاؤںڈیشن کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق خان کہتے ہیں کہ پہلے تو اس بیماری کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اب کافی بہتری آئی ہے۔
ڈاکٹر طارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں میں 80 فیصد ایسے ہیں جن کے والدین ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں یعنی ان کی شادی خاندان میں ہوئی اور یہ تھیلیسیمیا ہونے کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے۔
یہ بیماری بچوں میں کیسے منتقل ہوتی ہے؟
ڈاکٹر طارق نے آسان الفاظ میں اس بیماری کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ جب بچے کے والدین کے جسم میں تھیلیسیمیا کے اثرات موجود ہوں یا وہ 'تھیلیسیمیا مائنر' ہوں تو زیادہ امکانات یہی ہیں کہ ان کے پیدا ہونے والے بچے تھیلیسیمیا کا شکار ہوں گے۔
تھیلیسیمیا مائنر اور تھیلیسیمیا میجر کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق نے بتایا کہ تھیلیسیمیا مائنر میں بچے کے والدین میں تھیلیسمیا کے آثار موجود ہوتے ہیں لیکن ظاہر نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کو خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ سے چھ فیصد لوگ تھیلیسمیا مائنر کا شکار ہیں۔
اب جب یہ والدین جو تھیلیسیمیا مائنر ہوں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ شادی کریں تو ان کے پیدا ہونے والے بچوں میں تھیلیسیمیا میجر کے اثرات ظاہر ہوں گے یعنی ان کے بچے جب سات ماہ سے ایک سال کی عمر کو پہنچیں گے تو ان کا جسم خون پیدا کرنا چھوڑ دے گا اور پھر ان کو خون لگانے کی ضرورت ہوگی۔
ڈاکٹر طارق نے بتایا: 'تھیلیسیمیا مائنر لوگوں کو سائلنٹ کیریئر کہتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں تھیلیسیمیا کی علامات نہیں ہوتیں لیکن وہ ان کو اپنے بچوں میں منتقل کرکے ان کو تھیلیسیمیا میجر بنا دیتے ہیں۔'
کیا تھیلیسیمیا مائنر لوگ شادیاں نہیں کرسکتے؟
خیبر پختونخوا حکومت نے 2009 میں اسمبلی سے ایک قانون پاس کروایا ہے، جس کے تحت صوبے میں کوئی بھی شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کی تشخیص کے لیے لازمی ٹیسٹ کروائے گا اور اس کی ذمہ داری نکاح رجسٹرار پر ہوگی کہ وہ نکاح رجسٹرڈ کرنے سے پہلے جوڑے کے ٹیسٹ کی تصدیق کریں۔
قانون کے مطابق اگر نکاح رجسٹرار نے ٹیسٹ کے بغیر نکاح رجسٹرڈ کیا تو ان کا لائسنس منسوخ کرکے ان کو 10 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا، تاہم اس قانون کا اطلاق صوبے میں نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کے پیچھے معاشرتی مسائل کا ہاتھ ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے عورت فاؤنڈیشن سے منسلک صائمہ منیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ قانون تو پاس ہوگیا ہے اور حکومت نے اپنے سر سے اس مسئلے کی ذمہ داری ہٹالی ہے تاہم اس قانون کو نافذ کرنے میں حکومت ناکام ہے، کیونکہ حکومت کا کام صرف قانون پاس کرنا نہیں ہوتا بلکہ قانون کو معاشرتی رویوں کو دیکھ کر بنانا چاہیے۔
صائمہ نے بتایا: 'اب اس قانون میں کہیں پر یہ موجود نہیں ہے کہ اگر کسی کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ مثبت آتا ہے اور وہ خاتون شادی نہ کریں تو کیا ان کو معاشرے میں قبول کیا جائے گا اور کیا حکومت نے اس ضمن میں کچھ کیا ہے کہ ایسی خواتین کی بہتر رہنمائی سمیت ان کو باقاعدہ طور پر سپورٹ کیا جائے۔ ایسا کچھ بھی اس قانون میں موجود نہیں ہے جبکہ معاشرتی رویہ بھی یہی ہے کہ کوئی بھی خاتون شادی کے بغیر نہیں رہ سکتیں تو ایسے میں یہ ٹیسٹ کرانا اور اس قانون کو نافذ کرنا کتنا مشکل کام ہے۔'
صائمہ منیر نے زور دیا کہ اس کے علاوہ بھی حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ موجودہ تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کی حوصلہ کریں تاکہ وہ اپنی زندگی اچھے طریقے سے گزار سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شادی سے پہلے ٹیسٹ کرانے کے حوالے سے مختلف باتیں بھی مشہور ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر ٹیسٹ مثبت آجائے تو وہ شخص شادی نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر طارق نے اس حوالے سے بتایا کہ اس میں دو تین باتیں اہم ہیں، جن کو عام لوگوں کے لیے سمجھنا ضروری ہے۔
'پہلی بات یہ کہ ہم زور دیتے ہیں کہ شادی سے پہلے ہونے والا شوہر ٹیسٹ کرائے اور اگر ٹیسٹ میں تھیلیسیمیا مائنر تشخیص نہیں ہوتا تو وہ شادی کرسکتا ہے اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا تاہم اگر تھیلیسیمیا مائنر کا ٹیسٹ مثبت آتا ہے تو اس کے بعد ہونے والی بیوی کا ٹیسٹ کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔'
ڈاکٹر طارق نے بتایا کہ اگر دونوں کا ٹیسٹ مثبت آجائے تو پھر ہم مشورہ دیتے ہیں کہ یہ شادی نہ کی جائے کیونکہ اس میں زیادہ رسک یہی ہوتا ہے کہ بچے تھیلیسیمیا کا شکار ہوں گے۔ تاہم اگر شوہر کا ٹیسٹ منفی آجائے اور خاتون کا مثبت یا خاتون کا مثبت اور شوہر کا منفی آجائے تو یہ دونوں شادی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: 'آسان الفاظ میں اگر مرد اور خاتون میں سے ایک کا منفی اور دوسرے کا ٹیسٹ مثبت ہو تو وہ شادی کرسکتے ہیں تاہم اگر دونوں کے ٹیسٹ مثبت ہوں تو شادی نہیں کرنی چاہیے۔'
تاہم ڈاکٹر طارق نے بتایا کہ معاشرتی رویہ پاکستان میں ایسا ہے کہ یہاں شادی صرف مرد اور خاتون کی نہیں بلکہ دو خاندانوں کے مابین ہوتی ہے اور اسی وجہ سے یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ ٹیسٹ کے بعد وہ شادی منسوخ ہوجائے لیکن رسک کو کم کرنے کے لیے پھر ہم ایک اور طبی مشورہ دیتے ہیں۔
ڈاکٹر طارق کے مطابق ہم ان کو بتاتے ہیں کہ اگر تھیلیسیمیا مائنر شادی کرتے ہیں تو حمل کے تین مہینے بعد ایک خاص ٹیسٹ کیا جائے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچہ صحت مند ہے یا اس کو تھیلیسیمیا میجر ہے۔
'اگر ٹیسٹ میں بچے میں بھی تھیلیسیمیا کی تشخیص ہوجاتی ہے تو ڈاکٹروں کی جانب سے مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اسقاط حمل کروائیں۔ اس حوالے سے اسلامی فتویٰ بھی موجود ہے کہ اگر تین مہینوں تک حمل کے دوران بچے میں کسی موذی مرض کی تشخیص ہوجائے تو ایسے بچے کا اسقاط جائز ہے۔'
ٹیسٹ کرانے کے قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نےصوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کو پیغام بھیجا، تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
دوسری جانب اس حوالے سے 11 جنوری 2020 کو ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں رکن اسمبلی ریحانہ اسماعیل کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر وزیر صحت نے جواب دیا تھا کہ قانون کے مطابق یہ ٹیسٹ کروانا لازمی ہے اور اس قانون کو بنانے میں محکمہ صحت سے تکنیکی سپورٹ لی گئی تھی جبکہ اس پر عمل درآمد کی ذمہ داری مقامی حکومت کی ہے۔
ٹیسٹ کے حوالے سے سینٹرز سے متعلق وزیر صحت نے اسمبلی کو بتایا تھا کہ سرکاری سطح پر اس ٹیسٹ کی سہولت حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں موجود ہے، جس کی قیمت 750 روپے ہے جبکہ نجی لیبارٹریوں میں یہ ٹیسٹ کروانے کی قیمت 1600 روپے تک ہے۔