یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں
وزیراعظم اکثر گھر کی مثال دے کر ملک کے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی گھر پر قرضہ بہت ہو تو وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔
اگر کسی گھر میں بھائیوں میں دشمنی ہو اور وہ غیر کو اپنے مفاد میں استعمال کریں تو بلآخر فائدہ میں کون رہے گا۔ یقیناً غیر فائدہ اٹھائیں گے اور خاندان کا بیڑا غرق ہوگا۔ کچھ یہی حال اس بدقسمت ملک اور قوم کا ہے۔
پچھلے کئی دنوں سے ایک انتہائی مشکوک شہرت کا ایرانی نژاد برطانوی آدمی ہمارے ملک کے لوگوں کو تضحیک آمیز انداز میں بیان کررہا ہے بلکہ دنیا بھر میں ہماری بدنامی کا سامان پیدا کر رکھا ہے۔ اس آدمی کو کسی اور نے نہیں خود ہم نے اپنی بربادی کا سامان کرنے کے لیے منتخب کیا۔
چار ارب روپے اس غریب ملک کے ہڑپ کر چکا ہے اور ابھی مزید کئی ارب کمانے کے چکر میں ہے۔ یہ وہ شخص ہے جسے جنرل مشرف نے صرف اور صرف ذاتی مفاد میں دو سو لوگوں کی لسٹ فراہم کی تاکہ ان کے اثاثے معلوم کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ایسا ایک معاہدہ کیا گیا جس سے اس ملک کو تو کچھ نہ ملا مگر کئی ارب کا نقصان ضرور ہوا۔
جو لسٹ دی گئی اس میں سیاست دان تو چند تھے مگر زیادہ تر کاروباری لوگ تھے۔ لیکن یہ عمل صرف مشرف ہی تک محدود نہیں ہے۔ ماضی میں نواز شریف اور پیپلز پارٹی بھی مخالفین کو نقصان پہنچانے کے لیے ایسے فیصلے کرتے رہے اور عمران خان کی تو ساری سیاست ہی کرپشن کے کرد گھوم رہی ہے۔
ان تمام لوگوں نے یہ اقدامات صرف اور صرف ذاتی مفاد میں کیے اور ملک کا کوئی مفاد اس سے وابستہ نہیں تھا۔ جن لوگوں نے اثاثے باہر بنائے وہ سارا کرپشن کا پیسہ نہیں تھا بلکہ بہت سا پیسہ سرمائے کے طور پر بھیجا گیا۔
پاکستان میں یقیناً کرپشن ہے لیکن اس سے زیادہ اہم مسئلہ ناانصافی اور بدانتظامی ہے۔ کون عقل مند سرمایہ دار ہوگا جو اپنا سارا پیسہ پاکستان میں رکھے گا۔ ہمارے حکمرانوں کی غیر دانش مندی اور انتقامی سیاست کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں عدم استحکام رہا جس کا بھرپور فائدہ دبئی، لندن، استنبول اور ملیشیا جیسے ملکوں نے اٹھایا۔
آج تک کرپشن کا ایک پیسہ بھی واپس نہ آیا مگر اس انتقامی رویہ کی وجہ سے کچھ اندازوں کے مطابق پاکستانیوں کے 30 ارب ڈالر سے بھی زائد سرمایہ ان ملکوں میں لگا۔ یہی وجہ ہے کے ان ممالک کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ پاکستان میں کبھی سیاسی استحکام نہ آئے۔
کاوی موسوی جیسے لوگ اس مقصد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لیے لندن کی عدالتیں بھی ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ الطاف حسین کے گھر سے کئی لاکھ پاؤنڈ ملے مگر حکومتی اداروں نے اس کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کی کیونکہ کراچی بدامن رہے گا تو لندن میں لوگ جائیدادیں خریدیں گے۔ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے ہم اپنی اناؤں کی تسکین کے لیے خود ہی بربادی ککا انتظام کر لیتے ہیں۔
یہ تو صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کے ہمارے اہم ترین معاہدے بھی ان کمپنیوں کو دیئے جاتے ہیں جن کی شہرت کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کے اسلام آباد ائیرپورٹ کی چھتیں پہلے سال ہی لیک ہو جاتی ہیں اور بی آر ٹی کی نئی بسوں کو یا تو آگ لگ جاتی ہے یا انہیں دھکا لگانا پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوئی ایک بھی منصوبہ ایسا نہیں ہے جو وقت پر اور تخمینہ کے اندر تعمیر ہو۔ ہر پروجیکٹ اپنے تخمنیے سے دوگنے یا تین گنا خرچ کے بعد بنتا ہے اور معیار بھی کمتر ہوتا ہے۔ کوئی ان پلاننگ کرنے والوں اور انجینرز سے پوچھنے کو تیار نہیں کہ ان کا بجٹ غلط کیوں نکلا اور معیار اچھا کیوں نہیں۔
صرف یہی نہیں جھوٹے مقدمات بھی اس ملک کی شہرت اتنی خراب کر چکے کے کوئی سرمایہ دار پاکستان آنے کو تیار نہیں۔ رانا ثنا اللہ پر منشیات کا جو جھوٹا مقدمہ بنایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ مگر اسی رانا ثنا سے ماڈل ٹاؤن کے معاملے پر حقائق اور تحقیقات کوئی نہیں کر رہا۔ یعنی اصل جرم کرنے والے بھی کھلے پھر رہے ہیں اور جعلی مقدمات میں قوم بدنام بھی ہو رہی ہے۔
جو لوگ اپنے فرائض پورے نہیں کرتے اور بدعنوانی کرتے ہیں انہیں بھی پکڑنے والا کوئی نہیں۔ بلکہ بدعنوان لوگوں کو ترقیاں دی جا رہی ہیں جس سے حالات مزید بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ شہزاد اکبر اس قوم کو کچھ نہ دے پائے مگر وہ آج بھی وزیراعظم کے لاڈلے ہیں۔ غلام سرور خان نے دنیا بھر میں ہمارے پائلٹوں کو بدنام کیا مگر مجال ہے جو کوئی سزا مل سکے۔
وزیر ریلوے کی حیثیت سے شیخ رشید سینکڑوں لوگوں کو ٹرین حادثوں میں لقمہ اجل بنانے کے بعد ترقی پاکر وزیر داخلہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں کئی سو نااہل سرکاری عہدے داروں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا انہیں ترقیاں دی گئیں۔ دو نمبر آدمیوں کے لیے پاکستان جنت ہے جبکہ قابل اور ایمان دار لوگوں پر ہم نے زندگی تنگ کر دی ہے۔ سرمایہ کی طرح ایمان دار آدمی بھی ملک سے باہر منتقل ہو رہا ہے۔
انفرادی طور پر ہم کامیاب لوگ ہیں۔ اپنے اردگرد دیکھیں پاکستان کے ڈاکٹروں، انجینرز اور سائنس دانوں نے دنیا میں بڑا نام کمایا ہے۔ مگر اجتماعی طور پر ہم اب تک ایک ناکام قوم ہیں اور دوسرے ملکوں میں بدنام ہیں۔
اسے اب بدلنا ہوگا۔ ہمیں اجتماعی کامیابی حاصل کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ یہ ملک اور یہ نظام اب اس طرح نہیں چل سکتا۔ ذاتی اناؤں اور مفاد سے اب اوپر اٹھنا ہوگا۔ باہر سے آ کر کوئی ہماری قسمت نہیں بدلے گا یہ کام ہمیں خود ہی کرنا ہے۔
قومی سیاسی مذاکرات بے حد ضروری ہیں تاکہ مستقبل میں غلطیوں کا سلسلہ بند ہو اور ہم سب مل کر ایک بہتر سمت میں جا سکیں۔ ہم ماضی نہیں بدل سکتے مگر مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔