صوبائی وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے پیر کو کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے کوویکس پروگرام کے تحت 2021 کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی 20 فیصد آبادی کے لیے کرونا (کورونا) وائرس ویکسین کی فراہمی کا کام شروع ہو جائے گا، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ویکسین کس ملک کی اور کس کمپنی کی ہوگی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر یاسمین راشد نے بتایا کہ کوویکس ڈبلیو ایچ او کا پروگرام ہے، جس کے تحت ترقی پذیر ممالک کو ان کی 20 فیصد آبادی کے لیے مفت ویکسین دی جائے گی اور پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے مزید بتایا: 'امید ہے کہ 2021 کی پہلی سہ ماہی میں ہی کوویس کے تحت ویکسین کی فراہمی کا کام شروع ہو جائے گا، جس سے ہم اپنے ملک کی عمر رسیدہ آبادی اور ہائی رسک افراد کو ویکسین لگا سکتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی مختلف کمپنیوں سے بات چل رہی ہے اور ہم کوشش کریں گے کہ کوویکس کے ساتھ ساتھ حکومت بھی ویکسین اسی سال مہیا کرے۔ 'اگر اس طرح ہوا تو تقریباً پوری آبادی محفوظ ہو سکتی ہے کیونکہ ہماری 60 فیصد آبادی جوان ہے اور کرونا ان پر اتنی بری طرح اثر انداز نہیں ہوتا۔'
پاکستان مختلف ممالک سے کرونا ویکسین حاصل کرنے پر غور کر رہا ہے، تاہم ابھی تک کچھ بھی حتمی نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے کرونا ایکسپرٹ ایڈوائزر گروپ کے رکن ڈاکٹر جاوید حیات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'کرونا ویکسین کے حوالے سے مختلف کمپنیاں زیر غور ہیں لیکن عملی طور پر ہم مستقبل قریب میں چین سے ہی ویکسین امپورٹ کر سکتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فائزر اور مو ڈرنا کی ویکسینوں کو درکار درجہ حرارت منفی 17 ہے جسے کمپنی سے لے کر یہاں تک پہنچانا اور وہاں سے آگے لے کر جانا مشکل ہے۔'
ڈاکٹر جاوید حیات نے مزید بتایا کہ 'ایک برطانوی ویکسین کے بارے میں سوچا جارہا تھا لیکن وہ اتنے بڑے پیمانے پر ویکسین نہیں بنا رہی۔ ایک روسی کمپنی کی ویکسین بھی اچھے نتائج دے رہی ہے ان سے بھی مستقبل میں بات ہو سکتی ہے لیکن فی الحال پاکستان میں چین کی ویکسین رضاکارانہ طور پر لگوانے کے لیے 18 ہزار افراد شریک ہوئے۔ اس وقت ہم دو چینی کمپنیوں سائنو ویک اور سائنو فارمز سے بھی بات چیت کر رہے ہیں اور ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ہم ان سے ہی پہلے مرحلے میں دس لاکھ ویکسین لیں گے۔'
بقول ڈاکٹر جاوید حیات: 'جہاں تک ڈبلیو ایچ او کے کوویکس پروگرام کے تحت دی جانے والی ویکسین کا تعلق ہے تو عالمی ادارہ مختلف کمپنیوں سے بات کر رہا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ کون سی کمپنی کی ویکسین پاکستان بھجواتے ہیں۔'