عراقی دارالحکومت بغداد میں جمعرات کو ہونے والے دو خود کش بم دھماکوں میں تاحال 30 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
حکام کے مطابق یہ خود کش حملے وسطی بغداد کے طیران سکوائر پر واقع سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی ایک بڑی مارکیٹ میں کیے گئے جہاں 73 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
کرونا وبا کے باوجود پرانے کپڑوں کی یہ مارکیٹ لوگوں سے کچھا کھچ بھری رہتی ہے۔
عراقی وزارت داخلہ کے ایک بیان کے مطابق پہلا خودکش حملہ آور ایک بیمار کے روپ میں مارکیٹ میں داخل ہوا۔
لوگوں کا ہجوم جب اس کے گرد جمع ہوگیا تو اس نے اپنی بارودی جیکٹ کو دھماکے سے اڑا دیا۔
وزارت نے بتایا کہ پہلے دھماکے کے بعد جب لوگ متاثرین کی مدد کے لیے بھاگ رہے تھے تو دوسرے حملہ آور نے خود کو اڑا دیا۔
جائے وقوع پر موجود اے ایف پی کے ایک فوٹو گرافر نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے اس علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے جہاں ہر طرف انسانی اعضا اور خون سے لتھڑے کپڑے بکھرے پڑے ہیں۔
اس دوران طبی عملہ لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے میں مصروف رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعرات کو ہونے والا یہ حملہ بغداد میں جنوری 2018 کے بعد سے سب سے خونریز واقعہ ہے جب طیران سکوائر پر بھی ایک خودکش حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
2003 میں امریکی حملے کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران بغداد میں خودکش بم دھماکے عام تھے۔
لیکن 2017 کے آخر میں داعش گروپ کی شکست کے بعد شہر میں خودکش دھماکوں کا سلسلہ رک گیا تھا۔
امن کے بعد بغداد میں کنکریٹ کی دیواریں ختم کردی گئیں اور شہر بھر کی چوکیاں ہٹادی گئیں۔
جمعرات کو یہ حملہ ایسے وقت ہوا جب عراق میں انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں۔
2018 کا حملہ بھی عراق کے پارلیمانی انتخابات کے کے قریب ہوا تھا۔
وزیر اعظم مصطفی القدیمی نے 2019 میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد عام انتخابات کو مقررہ وقت سے ایک سال پہلے کرانے کا اعلان کیا تھا۔
جمعرات کو ہونے والے دو خودکش حملوں کی فوری طور کسی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔