وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ جنوبی وزیرستان دورے کے موقعے پر تھری اور فور جی سروس بحال کرنے کے اعلان سے زیادہ تر لوگوں کو تاثر ملا کہ جیسے اعلان کے ساتھ ہی یہ سہولت تمام قبائلی اضلاع میں بحال کر دی گئی ہے۔
تاہم مقامی صحافیوں کے مطابق وزیر اعظم کے اعلان کے بعد جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا میں جہاں پہلے سے موبائل نیٹ ورک موجود تھا محض ٹو جی سروس بحال ہو سکی ہے۔ اس کے علاوہ شمالی وزیرستان کے مرکزی شہری میران شاہ میں اب بھی ایک موبائل کمپنی کا نیٹ ورک دستیاب ہے لیکن حسب اعلان تھری یا فور جی بحال نہیں ہوسکی۔
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ وزیرستان کے دیگر علاقوں میں انٹرنیٹ کی یہ تیز سہولت دستیاب نہیں ہوسکی۔ انہوں نے بتایا کہ چند ایک مقامات پر صرف موبائل ٹاور نصب کیے گئے ہیں جن سے صارفین کو کوریج دینے پر عمل درآمد ابھی باقی ہے۔
پاکستان میں 2001 کے بعد سے وزیرستان سمیت تمام قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کی لہر کی وجہ سے جدید دور کی یہ لازمی سہولت ان پسماندہ علاقوں کو نہیں مل سکی۔ آج بھی سکیورٹی خدشات کی وجہ سے تیز ترفتار انٹرنیٹ تمام علاقے میں مہیا نہیں کیا جا رہا۔
دوسری جانب، اس اعلان کے بعد ضم شدہ اضلاع کے لوگوں خصوصاً نوجوان طبقے سے سوشل میڈیا اور دوسرے فورمز پر جشن منانےکی توقع کی جارہی تھی تاہم خلاف توقع مکمل خاموشی چھائی رہی، جس سے وہ لوگ بھی کنفیوژن کا شکار ہوئے جو سمجھتے تھے کہ برسوں سے تھری اور فور جی انٹرنیٹ سروس کا مطالبہ کرنے والے نوجوان سہولت ملنے پر سوشل میڈیا کو اظہار تشکر کے پیغامات سے بھر دیں گے۔
وزیر اعظم کے اعلان پر عمل درآمد کے حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر اعلیٰ محمود خان کے مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ضیااللہ بنگش سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’یہ اعلان دراصل تمام قبائلی اضلاع کے لیے ہے، تاہم اس میں وہ علاقے شامل نہیں ہوں گے جہاں سکیورٹی کے خدشات موجود ہیں۔‘ البتہ انہوں نے ان علاقوں کی نشاندہی نہیں کی۔
انہوں نے تاہم مزید بتایا کہ تھری اور فور جی کی سہولت مہیا کرنے کے لیے وہ موبائل کمپنیوں کے ساتھ بہت جلد ایک سٹریٹیجی پلان بنائیں گے جس کے بعد ہی قبائلی اضلاع کو یہ سروس مہیا کر دی جائے گی۔ یہ کب ممکن ہوسکے گا اس بارے میں انہوں نے وقت کا تعین نہیں کیا۔
جنوبی وزیرستان کے نوجوانوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وانا میں انٹرنیٹ کی سہولت بہت پہلے سے موجود تھی۔ قبائلی اضلاع کے چند ایک شہری علاقوں میں بہت پہلے سے پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائن سروس موجود ہے، تاہم اس تک ایک خاص محدود تعداد کی رسائی حاصل ہے۔
شمالی وزیرستان کی تحصیل شوال سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور ٹرائیبل یوتھ ڈیویلپمنٹ سوسائٹی نامی تنظیم کے رکن خان بہاد نے بتایا کہ عمران خان کا یہ اعلان وزیرستان کے ان علاقوں کے لیے تھا جہاں زیادہ تر وزیر قبائل آباد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس اعلان پر خوشی تب ہوتی جب محسود آبادی والے علاقوں کو بھی ان اعلانات میں یاد رکھا جاتا، جو ابھی تک موبائل نیٹ ورک کی سہولت سے محروم ہیں۔
’پشاور اور دنیا فائیو جی کی باتیں کر رہی ہے اور ہم ابھی بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ہمارے مطالبات کچھ اتنے بڑے بھی نہیں۔ ہمیں ٹو جی ہی دیں لیکن دیں تو سہی۔‘
شمالی وزیرستان کی ہی ایک تحصیل دوسلی سے تعلق رکھنے والے نوجوان عطا اللہ نے، جو وزیرستان سٹوڈنٹس سوسائٹی کے صدر بھی ہیں، بتایا کہ شمالی وزیرستان کی 10 تحصیلوں میں سب سے پہلے موبائل نیٹ ورک بحال کیے جائیں تب ہی وہ تھری اور فور جی سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔
’ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایک سال قبل بھی انہوں نے ایسا ہی اعلان کیا تھا لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ قبائلی اضلاع کے طلبہ جو خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر شہروں میں پڑھتے تھے، وہ کرونا وبا کے دوران جہاں ہاسٹل میں قیام سے محروم ہوئ،ے وہیں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے ان کا تعلیمی سال بھی متاثر ہوا۔‘
ضلع خیبر کے سماجی کارکن عامر آفریدی نے، جو کہ تھری اور فور جی سروس بحال کرنے کے لیے پچھلے سالوں میں ہونے والے قریباً ہر احتجاج کا حصہ رہے، بتایا کہ باوجود اس حقیقت کے کہ خیبر پشاور کے بہت قریب ہے انہیں تھری اور فور جی کی سہولت پھر بھی میسر نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ 2019 میں جب عمران خان ضلع خیبر آئے تھے تو مجمعے سے لوگوں نے تھری جی کا نعرہ بلند کیا، جس پر خان صاحب مسکرائے اور کہا تھا کہ وہ سمجھ گئے ہیں کہ قبائلی اضلاع کے نوجوان کیا چاہتے ہیں۔
’تب انہوں نے ضلع خیبر میں انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کو وزیر اعلیٰ محمود خان نے بھی دہرایا تھا۔ اس کے بعد ڈی سی نے ایک لیٹر جاری کیا تھا جس میں مختلف موبائل کمپنیوں کا ذکر بھی ہوا تھا۔ لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس اعلان پر عمل نہیں ہو سکا ہے۔ اگرچہ یہ نیا اعلان صرف وانا کے لیے لیکن ہم امید کر سکتے ہیں کہ اس سہولت سے تمام قبائلی اضلاع مستفید ہو سکیں گے۔‘
عامر آفریدی نے کہا کہ وہ مختلف مواقعے پر پاکستان فوج کے کئی سینیئر افسروں سے بھی تھری جی سروس کی بحالی پر بات کر چکے ہیں لیکن ان کے جوابات انہیں مطمئن نہیں کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا کے عوام اسی لیے انضمام چاہتے تھے کہ ’نو گو ایریا‘ کا تصور ختم ہو جائے اورانہیں بھی باقی شہریوں جیسی سہولیات ملیں۔ ان کا سوال تھا کہ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو اس انضمام کی ضرورت کیا تھی، 2015 تک تمام جنگیں ختم ہوئیں، اب تو امن آگیا ہے اب کیوں بندشیں ہیں؟‘