خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں جمعرات (11 فروری) کی دوپہر ایک نوجوان نے کوہاٹ روڈ پر واقع کلینک میں ایک احمدی شخص کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ کلینک کے آس پاس موجود لوگوں نے حملہ آور کو فرار ہونے میں کامیاب نہ ہونے دیا اور پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔
یہ واقعہ علاقہ بازید خیل کی حدود تھانہ انقلاب میں واقع ایک کلینک پر پیش آیا، جہاں 65 سالہ مقتول عبدالقادر بطور میڈیکل ٹیکنیشن کام کرتے تھے۔
تھانہ انقلاب کے محرر ظفر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ واقعہ دوپہر دو بجے کے قریب پیش آیا، جس کی اطلاع ملتے ہی ایس ایچ او کی قیادت میں پولیس موقع واردات پر پہنچ گئی۔
ظفر خان نے بتایا کہ ’حملہ آور احسان کا تعلق ضلع خیبر کے علاقے باڑہ سے ہے اور انہیں گرفتار کیا جا چکا ہے۔‘
واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا: ’عبدالقادر معمول کے مطابق اپنے گھر سے ملحقہ کلینک میں مریض دیکھنے میں مصروف تھے کہ احسان نے آ کر انہیں گولی مار دی۔‘
اس سے قبل 2020 میں بھی اسی علاقے میں ایک 60 سالہ احمدی کو اس وقت قتل کیا گیا تھا، جب وہ گھر جانے کے لیے بس سٹاپ پر گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔
آج کے واقعے سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی ایک ویڈیو، جو ایک علاقہ مکین نے بنائی ہے، میں حملہ آور کی عمر 18 سے 22 سال کے درمیان نظر آتی ہے، جس نے سر پر سفید رنگ کا رومال اور ہاتھ پر گھڑی باندھی ہوئی ہے۔ حملہ آور کو ایک عمارت کے کونے میں بیٹھا ہوا دیکھا جاسکتا ہے جب کہ کیمرے کے عقب سے طیش بھری آوازیں سنی جا سکتی ہیں، جس میں لوگ حملہ آور کو مارنے پیٹنے پر زور دے رہے ہیں۔
علاقہ مکینوں نے پولیس کو اطلاع دینے کے بعد خود بھی احسان نامی اس نوجوان سے پوچھ گچھ کرنے کی کوشش کی۔
ویڈیو میں جب احسان سے پوچھا گیا کہ آیا ان کی عبدالقادر کے ساتھ کسی قسم کی ذاتی دشمنی تھی؟ تو انہوں نے جواب نفی میں دیا۔ ان سے دوبارہ قتل کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ’نہ تو انہیں کسی نے کچھ کہا ہے اور نہ ان کا مقتول کے ساتھ کوئی معاملہ تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ 1973 کے آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔
گذشتہ برس ملک بھر میں کُل پانچ احمدیوں کو قتل کیا گیا، جن میں سے تین کا تعلق پشاور سے تھا۔
2020 میں ہی جماعت احمدیہ پاکستان کی اطلاع کے مطابق قصہ خوانی بازار کے ایک سٹور پر بھی قتل کی غرض سے ایک حملہ ہوا تھا، جس میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
دو مہینے قبل ضلع صوابی کے ایک علاقے میں بھی ایک خاندان پر احمدی ہونے کا الزام لگایا گیا اور ان پر حملہ کرنے کے لیے سینکڑوں لوگ جمع ہوئے تاہم بعد میں گاؤں کے بڑے بوڑھوں نے انہیں سمجھایا کہ متعلقہ خاندان احمدی نہیں ہے۔
جماعت احمدیہ پاکستان نے آج کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’احمدیوں کے خلاف مسلسل جاری منفی پروپیگنڈے کے باعث وہ عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں اور انہیں بار بار ہراساں کیا جارہا ہے۔‘
جماعت احمدیہ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ احمدیوں کی جان ومال کی حفاظت کے لیے فوری طور پر موثر اقدامات اٹھائے۔