بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے شمالی ضلع بانڈی پورہ میں مبینہ طور پر بھارتی فوجیوں نے ایک نو سالہ بچی کو اغوا کرنے اور ریپ کا نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔
ضلع بانڈی پورہ کے اجس نامی علاقے میں رواں ماہ 10 فروری کو پیش آنے والا یہ واقعہ چھ روز بعد منگل کو کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی ایک ٹویٹ کے نتیجے میں منظرعام پر آیا۔
محبوبہ مفتی کا دعویٰ ہے کہ متاثرہ بچی کے گھر والوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ فوجی اہلکاروں کے خلاف درج ہونے والا مقدمہ واپس لے لیں۔
انہوں نے لکھا: ’بانڈی پورہ کے مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ تین فوجی اہلکاروں نے نو سالہ بچی کو اغوا کرکے اس کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی۔ اب اس کے گھر والوں پر ایف آئی آر واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اس واقعے کی فوری طور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے قصورواروں کو سخت سزا دی جانی چاہیے۔‘
بانڈی پورہ کے مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ 3 فوجی اہلکاروں نے 9 سالہ بچی کو اغوا کرکے اس کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی۔ اب اس کے گھر والوں پر ایف آئی آر واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
اس واقعہ کی فوری طور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے قصورواروں کو سخت سزا دی جانی چاہیئے ۔
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) February 16, 2021
ضلع بانڈی پورہ کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس راہل ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملزمان کی شناخت کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ ایک کمسن بچی کا مسئلہ ہے۔ ہم نے واقعہ کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں۔ معاملے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔‘
محبوبہ مفتی کی ٹویٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر راہل ملک نے بتایا: ’واقعے کو پیش آئے چھ دن گزر چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ محبوبہ مفتی کو تاخیر سے معلوم ہوا ہو، اس لیے انہوں نے اب اس معاملے پر ٹویٹ کی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے معاملے پر سری نگر میں تعینات بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیا سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔
واقعہ کب اور کیسے پیش آیا؟
کشمیر کے مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق 10 فروری کو بھارتی فوج کے تین مبینہ سپاہیوں نے بانڈی پورہ – سری نگر ہائی وے پر واقع اجس نامی علاقے میں اپنی کار روکی اور ایک نو سالہ بچی کو زبردستی گاڑی میں بٹھایا۔
جب ان مبینہ سپاہیوں نے کمسن بچی کو زبردستی گاڑی میں بٹھایا تو اس نے اپنی عزت و جان کو بچانے کے لیے بہت شور مچایا جس سے مقامی لوگ الرٹ ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی لوگوں نے اغوا کاروں کی گاڑی کا پیچھا کیا اور کچھ فاصلے پر ہی نہ صرف مغوی بچی کو بازیاب کیا بلکہ اغوا کاروں کو بھی پولیس کے حوالے کر دیا۔
اس واقعے کے خلاف مقامی لوگوں نے احتجاج بھی کیا تھا اور اب متاثرہ بچی کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ان پر مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
بانڈی پورہ سے ایک صحافی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی تفصیلات پر پولیس یا متاثرہ خاندان میں سے کوئی بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ملزمان بھارتی فوج کے اہلکار تھے۔ پولیس ملزمان کی شناخت ظاہر نہیں کر رہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ جن مبینہ فوجیوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں سے دو بھارتی اور ایک کشمیری ہے۔‘
’خوش ہوں کہ میری بیٹی محفوظ ہے‘
بچی کے والد نے مقامی نیوز پورٹل ’کشمیر والا‘ سے گفتگو میں کہا ہے وہ خوش ہیں کہ ان کی بیٹی محفوظ ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’وہ ٹیوشن سینٹر سے گھر لوٹ رہی تھی کہ تینوں نے میری بچی کو زبردستی گاڑی میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔‘
بچی کے والد کے مطابق: ’عینی شاہدین نے مجھے بتایا کہ تینوں ایک آلٹو کار میں سوار تھے اور بچی کو زبردستی گاڑی میں بٹھا رہے تھے۔ گاڑی سے تین مختلف نمبر پلیٹس ملے ہیں۔‘
اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں
کشمیر کے حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ضلع بانڈی پورہ میں مبینہ بھارتی فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں ایک کمسن بچی کو اغوا کر کے لے جانے کی کوشش اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع بانڈی پورہ کے ساتھ واقع ضلع کپواڑہ کے کنن اور پوش پورہ نامی دو دیہات میں 23 اور 24 فروری 1991 کی درمیانی شب بھارتی فوج نے مبینہ طور پر تلاشی آپریشن کی آڑ میں مردوں کو ایک جگہ جمع کرنے کے بعد قریباً 100 خواتین کا گینگ ریپ کیا تھا۔
’گذشتہ تین دہائیوں کے دوران وردی میں ملبوس اہلکاروں کے ہاتھوں کشمیری خواتین سے زیادتی کے متعدد واقعات منظر عام پر آئے ہیں لیکن اب تک کسی بھی وردی والے کو سزا نہیں ملی ہے۔‘