امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے افغانستان میں بسنے والی خواتین سب سے زیادہ خوف زدہ ہیں جن کے ذہنوں میں شدت پسند گروہ کے وہ مظالم ابھی بھی نقش ہیں جو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں خواتین کے ساتھ روا رکھے۔
طالبان نے اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ خواتین کو باہر کام کرنے کی اجازت تو درکنار وہ پورا جسم بشمول چہرہ ڈھانپے بغیر گھر سے باہر قدم بھی نہیں نکال سکتی تھیں، ہنگامی صورتحال میں گھر سے باہر نکلنے کے لیے محرم کا ساتھ ہونا ضروری تھا۔ یہی نہیں بالوں کی ایک لٹ نظر آنے کی صورت میں انہیں کوڑوں کی سزا دی جاتی تھی۔
امن مذاکرات کے نتیجے میں امریکہ ممکنہ طور پر افغانستان سے اپنی تمام افواج نکال کر طالبان کو کابل کے اقتدار میں شراکت دار بنا سکتا ہے جو افغان خواتین کے لیے یقیناً ایک بری خبر ہو گی۔
اگرچہ صدر اشرف غنی کو امن مذاکرات سے باہر رکھا گیا ہے تاہم ان کی اہلیہ رولہ غنی نے افغان خواتین کے حقوق کے لیے کمر کس رکھی ہے جو ان مذاکرات میں خواتین کی تشویش کے لیے موثر آواز بن کر سامنے آئی ہیں۔
جیسا کہ رولہ غنی خود کہتی ہیں کہ وہ افغان خواتین کے حقوق کے لیے ڈھال کی طرح کھڑی رہیں گی اور کسی صورت ہتھیار نہیں ڈالیں گی۔
ان کی آواز میں ملک بھر کی خواتین کی آوازیں بھی شامل ہو گئی ہیں جو یک زبان ہو کر کہہ رہی ہیں کہ ’ہم واپس نہیں جائیں گی۔‘
یہ مقبول آواز اب ملک کے دوردراز علاقوں میں بھی گونج رہی ہے۔
رولہ غنی نے کابل کے صدارتی محل میں واقع اپنے چیمبر میں دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ بطور خاتون اول انہیں کئی مراعات حاصل ہیں تاہم یہ مقام انہیں اپنے کندھوں پر ذمہ داریوں کا احساس بھی دلواتا ہے۔
1990 کی دہائی کے بعد اور طالبان حکومت کے خاتمے سے ملک ڈرامائی طور پر تبدیل ہوا ہے۔
افغان خاتون اول کا کہنا ہے اب خواتین حکومتی مشینری کا حصہ ہیں، یونیورسٹیوں میں خواتین زیر تعلیم ہیں، غیرسرکاری تنظیمیں انسانی حقوق کے لیے متحرک ہیں اور دارالحکومت کے کیفے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے بھرے نظر آتے ہیں۔
رولہ غنی چاہتی ہیں کہ طالبان سے مذاکرات میں خواتین سے متعلق خدشات پر بھی بات کی جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کو چاہیے کہ مذاکرات کی میز پر دیگر معاملات کے ساتھ خواتین کے حوالے سے بھی بات ہونی چاہیے اور عسکری فوائد کے لیے ملک کو دوبارہ تاریکی میں نہ دھکیلا جائے۔
70 سالہ رولہ غنی نے کمزور لیکن غیر متزلزل فرانسیسی لہجے میں سوال کیا: ’خواتین کو سمجھنے کے لیے کسی قسم کا حقیقی کام نہیں کیا جا رہا ہے۔ ان کے خیالات کیا ہیں؟ ان کی ترجیحات کیا ہیں؟ کیا وہ امن کے لیے رکاوٹ سمجھی جا رہی ہیں؟‘
رولہ کی پرورش لبنان میں ہوئی ہے اور وہ پیرس سے تعلیم یافتہ ہیں۔
افغان خواتین کے لیے سرگرم کارکنوں کا ماننا ہے کہ طالبان سے امن مذاکرات میں امریکہ کی توجہ غیر ملکی افواج کی واپسی اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر مرکوز ہے، خواتین بظاہر ان کی ترجیحات میں نظر نہیں آ رہیں، اس بات کا اندازہ قطر میں امریکی اور طالبان وفد کی تصاویر سے لگایا جا سکتا ہے جس میں ایک بھی خاتون نظر نہیں آئے گی۔
اسی طرح ماسکو میں افغانستان کے عمائدین اور طالبان کے درمیان حالیہ بات چیت کے دوران 42 رکنی وفد میں صرف دو خواتین کی نمائندگی شامل تھی۔
اور جب امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کابل میں افغان صدر اشرف غنی اور جنگ ذدہ ملک میں امریکی کمانڈر سکاٹ ملر کے ساتھ اعلیٰ سطح کے مذاکرات کر رہے تھے تو ان اجلاسوں میں بھی کوئی خاتون شامل نہیں تھی۔
حتیٰ کہ طالبان رہنماؤں نے اب خود کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں اور اسلامی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے خواتین کو تعلیم کے حصول کے حق کو تسلیم کرتے ہیں تاہم افغان نوجوانوں کو طالبان کی اس وضاحت پر شبہ ہے۔
خواتین کے خدشات کو دور کرنے کے لیے، خاتون اول کے دفتر اور خواتین کی تنظیموں نے گذشتہ اگست میں افغانستان کے 34 صوبوں میں سروے کے دوران 15 ہزار خواتین سے ملاقاتیں کی، ان میں وہ علاقے بھی شامل تھے جہاں طالبان کا کنٹرول ہے۔
ہر ملاقات مختلف تھی۔ جنوبی صوبے ہلمند میں خواتین نے کہا کہ حقیقی اور دیرپا امن حاصل کرنے کے لیے تعلیم واحد راستہ ہے۔
مرکزی صوبے سمنگان میں شرکا نے گیت گا کر اپنی آواز بین الاقوامی برادری تک پہنچانے کی کوشش کی۔ پاکستانی سرحد سے منسلک کنڑ صوبے میں صرف چند ایک خواتین ایسی تھیں جنہوں نے اپنا چہرہ نہیں ڈھانپا تھا، ان خواتین نے مطالبہ کیا کہ مذاکرات میں ان کی بھی نمائندگی ہونی چاہیے کیونکہ یہ ایک عورت ہی ہے جس نے طالبان کی بھی پرورش کی ہے اور ان کے خلاف لڑنے والے سرکاری فوج کے جوان کی بھی۔
صوبے کی خواتین نے ٹوئٹر پر ایک بیان بھی جاری کیا ہے۔
اگرچہ افغانستان میں اکثریت کے لیے خاتون اول رول ماڈل ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو رولہ غنی کی کوششوں کو سراہ نہیں رہے۔
جب خاتون اول کے دفتر نے پچھلے ماہ مشرقی صوبے ننگرہار میں غریب خواتین میں لاکھوں ڈالر تقسیم کرنے کے لیے بھیجے توطالبان کے ارکان نے رقم قبضے میں لے کر اسے آگ لگا دی۔ مقامی حکام نے بھی رولہ کے اس اقدام کو شک کی نظر سے دیکھا اور الزام لگایا کہ یہ ان کی سیاسی چال تھی جس کا مقصد اپنے شوہر کو دوبارہ اقتدار میں لانا ہے، واضح رہے کہ افغانستان میں رواں برس صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
فروری میں لویا جرگہ کے خیمے میں خواتین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے 35 سو خواتین نے شرکت کی تھی۔
رولہ غنی نے روشن چہرے کے ساتھ بتایا: ’یہ ایک زبردست کانفرنس تھی۔‘ اس کانفرنس میں خواتین نے فوری طور پر جنگ بندی اور اپنے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔
تاہم رولہ غنی نے شکایتی انداز میں کہا کہ امریکی حکومت یا طالبان نے ان مطالبات پر مثبت ردعمل نہیں دیا۔
افغان مذاکرات کا اگلا دور دوحہ میں ہونے جا رہا ہے جس میں 40 خواتین بھی شرکت کریں گی اگرچہ طالبان کی جانب سے صرف پانچ خواتین کو باقاعدہ طور پر مدعو کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی رکن وظمہ فروغ کا کہنا ہے کہ ’ہم زیادہ سے زیادہ خواتین کی نمائندگی چاہتے ہیں، ہم اس صورتحال سے مطمئن نہیں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ تمام 40 خواتین شرکا نے قطری ویزے حاصل کر لیے ہیں تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر موجود ہوں گی بھی یا نہیں لیکن ان کا وہاں موجود ہونا ضروری ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سمیت امریکی حکام کے امن معاہدے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بیانات لب کشائی کے علاوہ کچھ نہیں۔
’افغان ویمن نیٹ ورک‘ کی ڈائریکٹر میری اکرمی نے کہا: ’جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، امریکیوں کی اپنی سیاست ہے، ان کا اپنا ہی ایجنڈا اور ترجیحات ہیں، لیکن ہم نے انہیں بتایا ہے کہ خواتین کے بغیر امن معاہدہ بے سود ہو گا۔‘
جب زلمےخلیل زاد کی امریکی بیوی، چیرل بینیرڈ نے افغان خواتین کے بارے میں اخباری کالم لکھا تو دنیا بھر میں یہ تاثر گیا کہ یہ خیالات ان کی بجائے ان کے خاوند کی نمائندگی کررہے تھے۔
بینیرڈ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین کو اپنے حقوق کے لیے خود جدوجہد کرنا ہوگی جیسا کہ مغربی خواتین کرتی ہیں اور انہیں غیر ملکی پیسے کی بجائے خود انحصاری اختیار کرنا چاہیے۔
اس پر افغان خواتین کا ردعمل توقع کے مطابق شدید تھا۔
افغان خواتین کے تعلیمی ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پلوشہ حسن نے اس اشاعت کے جواب میں لکھا کہ ’ہم اپنے حقوق کے لیے طویل عرصہ سے جدوجہد کر رہی ہیں، یہ کوششیں امریکی افواج کی آمد سے پہلے بھی جاری تھیں اور ان کے انخلا کے بعد بھی جاری رہیں گی۔‘
خاتون اول رولہ غنی سمیت افغان خواتین کی ہمت اور جہدِ مسلسل نئے افغانستان کی نوید سنا سکتی ہے جیسا کہ آئندہ انتخابات میں لویا جرگہ میں خواتین کی نمائندگی 30 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔