شمالی وزیرستان میں کچھ روز قبل ایک غیر سرکاری ادارے سے منسلک چار عورتوں اور ان کے ساتھ موجود مرد ڈرائیور کو سرِ عام گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ یہ خواتین اس ادارے کے ساتھ دیہاڑی پر کام کر رہی تھیں اور وہ علاقے کی عورتوں کو سلائی کڑھائی، دستکاری اور پارلر کا کام سکھاتی تھیں تاکہ وہ گھر پر اپنا کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کر سکیں اور گھر کے حالات بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
یہ ان کا جرم تھا جس کی پاداش میں انہیں اس بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔
اب آپ پوچھیں گے اس میں نئی بات کیا ہے، ہمارے ملک میں تو ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں؟ جی بالکل، اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب اخبارات کسی عورت کے قتل کی خبر نہ چھاپتے ہوں ورنہ آپ کسی بھی دن کا اخبار اٹھا لیں، پہلے دو صفحات میں ہی تین چار عورتوں کے قتل کی خبریں مل جائیں گی۔
قندیل بلوچ کا قتل بھی کوئی پرانی بات نہیں ہے۔ انہیں اپنے ہی سگے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا تھا۔ قندیل اپنی موت سے قبل بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کر چکی تھیں۔ اس کے قتل کی خبر دنیا کے ہر بڑے نشریاتی ادارے نے چھاپی۔ دنیا بھر سے صحافی پاکستان آئے تاکہ اس کی زندگی اور قتل کے بارے میں مزید جان سکیں اور اپنے اپنے ادارے کے لیے ایک اچھی سٹوری بنا سکیں۔
ایک پاکستانی صحافی صنم مہر نے قندیل بلوچ پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ایک جگہ وہ لکھتی ہیں کہ جب وہ تحقیق کی غرض سے اس علاقے میں پہنچیں تو ان کے مترجم نے ان سے پوچھا کہ قندیل بلوچ میں ایسی کیا خاص بات تھی جو دنیا بھر سے صحافی اس کے بارے میں جاننے کے لیے وہاں آ رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
؟ اس نے کہا کہ ان کے ہاں عورتوں کا غیرت کے نام پر قتل کرنا معمول کی بات ہے۔ وہاں کے آدمی عورتوں کو ان کی کسی لغزش کی بنیاد پر قتل کر کے ان کی نعش بوری میں ڈال کر دریا میں پھینک دیتے ہیں۔ وہ آدمی حیران تھا کہ قندیل بلوچ کے قتل میں ایسا کیا خاص بات ہے کہ پوری دنیا اس کے بارے میں بات کر رہی تھی۔ اس کا ذہن شاید عورتوں کے قتل کو ایک عام بات تصور کر چکا تھا۔
ہم بھی عورتوں پر ہونے والے تشدد کو اتنا ہی عام سمجھتے ہیں جتنا وہ آدمی سمجھ رہا تھا۔ ورنہ ہم ہر قتل پر اپنے گھر سے باہر نکلتے، حکومت سے اپنے لیے تحفظ مانگتے، پر ہم ایسا نہیں کرتے۔ مہینوں بعد کوئی واقعہ کسی نکتے کی وجہ سے ہمارا دل کھینچ لے تو کھینچ لے ورنہ اخبارات میں ہماری دلچسپی کی اور بہت خبریں ہوتی ہیں۔
ان چار عورتوں کا کیا قصور تھا؟ شاید ان کی غربت یا ان کے شوہروں کا بر سرِ روزگار نہ ہونا یا ان کا ایک این جی او کی 16 روزہ عارضی نوکری کرنے کی ہامی بھرنا یا ایک پدر شاہی معاشرے کا حصہ ہونا جہاں عورت کا کام کرنا معیوب تصور کیا جاتا ہے یا اس ملک کے اس حصے میں پیدا ہونا یا بسنا جہاں حکومت کا زور بس نام کی حد تک ہی نظر آتا ہے۔
خیر، اس میں بھی حیران ہونے والی کوئی بات نہیں۔ اس ملک میں عورتیں پیدا ہونے کی وجہ سے بھی طعنے سنتی ہیں، دھتکاری جاتی ہیں اور کچھ تو قتل بھی کر دی جاتی ہیں۔ یہ عورتیں تو پھر کچھ سال جی لیں، ایسا بہت کچھ کر سکیں جو ان سے پہلے قتل ہو جانے والی عورتیں نہ کر سکیں، گھر سے باہر بھی نکلیں، کام بھی کیا، اس علاقے کے اعتبار سے یہ کتنی بڑی بات ہے، اب اس سے آگے وہ اور کیا کر سکتی تھیں۔
ملالہ یوسفزئی لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لیے آواز اٹھانے کی وجہ سے طالبان کی دہشت گردی کا نشانہ بنی۔ ملالہ کو پوری دنیا نے گلے سے لگایا سوائے ہمارے۔ وہ دنیا کے لیے ہیرو ہے اور ہمارے لیے سازش۔ اسے سالوں بعد پھر سے دھمکی ملی ہے، جس کے جواب میں حکومت نے ٹوئٹر کو شکائیت تو درج کروا دی ہے پر ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ احسان اللہ احسان کے نام سے منسوب وہ اکاؤنٹ جعلی تھا۔ ادھر ملالہ کے والد ضیاالدین یوسفزئی نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کے قابلِ اعتماد ذرائع کے مطابق وہ ٹوئٹر اکاؤنٹ احسان اللہ احسان کا اصلی اکاؤنٹ تھا۔ ملالہ اور ان کے والد حکومت سے پوچھ رہے ہیں کہ احسان اللہ احسان گرفتار ہونے کے بعد کیسے فرار ہوا؟ جواب میں بس خاموشی ہے۔
یہی خاموشی ان عورتوں کے قتل پر بھی طاری ہے۔ ہو گئیں قتل تو ہو گئیں۔ مذمتی بیانات سالوں سے جاری ہوتے آ رہے ہیں، اب بھی ہو جائیں گے، عورتیں بھی سالوں سے قتل ہوتی آ رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں اور آگے بھی ہوتی رہیں گی۔ اس میں ان ہونی کیا ہے۔
ان کا کام ہے الیکشن میں کھڑے ہونا اور آپ کا کام ہے انہیں ووٹ دے کر پارلیمان میں لانا۔ وہ اپنا کام کر رہے ہیں، آپ اپنا کام کریں۔