میانمار: ’فوجی آمریت ختم کردی تو آنے والی نسل کو جمہوریت ملے گی‘

یکم فروری کو میانمار میں منتخب رہنما آنگ سان سوچی کو برطرف کرکے فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف لوگ اب بھی سراپا احتجاج ہیں۔

یکم فروری کو میانمار میں منتخب رہنما آنگ سان سوچی کو برطرف کرکے فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف لوگ اب بھی سراپا احتجاج ہیں، خصوصاً نوجوانوں نے احتجاج کے نئے طریقے اپنائے ہیں۔

میانمار میں اقتدار پر فوج کے قبضے کے خلاف اتوار (سات فروری) کو بھی لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کیا۔ انٹرنیٹ پر پابندی فوج کی طرف سے ملک کی منتخب رہنما آنگ سان سوچی کی گرفتاری کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی ردعمل کو دبانے میں ناکام رہی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں 10 سالہ جمہوریت کو اچانک ناکامی سے دورچار کرنے والی فوجی کارروائی کی مذمت کی گئی۔ ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون میں ہونے والے مظاہرے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اس موقعے پر کاروں کے ہارن بجائے گئے۔

مظاہرین نے بینر اٹھا رکھے تھے، جن پر ’میانمار کے لیے انصاف‘ اور ’ہم فوجی آمریت نہیں چاہتے‘کے نعرے درج تھے۔ بعض مظاہرین نے آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے مخصوص سرخ جھنڈے بھی لہرائے۔

پولیس نے کئی مقامات پر مظاہرین کو ینگون شہر کے اندرونی حصے کی طرف بڑھنے سے روک دیا، جس کے بعد وہ دوپہر کے بعد سٹی ہال میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔

مظاہرے میں شریک یونیورسٹی کی ایک 20 سالہ طالبہ چھی پائیوچھانے کہا:  ’میں فوجی بغاوت سے مکمل طور پر نفرت کرتی ہوں۔ میں کریک ڈاؤن سے نہیں ڈرتی۔ جب تک امے سو (آن سانگ سوچی) کو رہا نہیں جاتا میں روز مظاہرے میں شرکت کروں گی۔‘

دوسری جانب معاشیات کے ایک 18 سالہ طالب علم کا کہناتھا:  ’ہم آخر تک لڑیں گے۔ اگر ہم نے فوجی آمریت ختم کر دی تو آنے والی نسل کو جمہوریت ملے گی۔‘

انٹرنیٹ کی بندش بھی عوامی ناراضی میں اضافہ روکنے میں ناکام رہی۔ پیر کو سوچی اور دوسرے سینیئر رہنماؤں کی گرفتاری کے موقعے پر انٹرنیٹ بند کر دیا گیا تھا، تاہم اتوار کو دوپہر کے بعد اسے جزوی طور پر بحال کردیا گیا۔

مظاہرے میں شرکت کے لیے آن لائن کالز دلیرانہ احتجاج کا سبب بنیں،  جن میں رات کو برتن بجانے سے پیدا ہونے والا شور بھی شامل تھا۔ میانمار میں ایسا بدروحوں کو بھگانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

ہفتے کو ہونے والے مظاہروں کے بعد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ  ’میانمار کی فوج اور پولیس پرامن اجتماع کے حق کا پوری طرح احترام کرے اور مظاہرین کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میانمارکے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں بھی چھوٹے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ غیر سرکاری تنظیم کے ایک رکن نے اے ایف پی کو بتایا کہ مالامائن شہر میں ہونے والے مظاہرے میں تقریباً چار سو افراد نے شرکت کی۔

ینگون میں ہونے والے مظاہرے میں شریک افراد نے ’ہنگر گیمز‘ نامی فلم سے متاثر ہو کر تین انگلیوں کے ساتھ سیلوٹ کیا۔ یہ سیلوٹ گذشتہ سال تھائی لینڈ میں جمہوریت کے حق میں ہونے والوں مظاہروں کے دوران مزاحمت کی علامت بن گیا تھا۔

دوسری جانب سائبر سکیورٹی اور انٹرنیٹ پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم نیب بلاکس نے کہا ہے کہ میانمار میں اتوار کو انٹرنیٹ جزوری طور پر بحال کر دیا گیا ہے۔ تنظیم نے اپنی ٹویٹ میں بتایا: ’معلومات پر مکمل پابندی کے بعد میانمار میں دن دو بجے سے انٹرنیٹ کی جزوی بحال کی تصدیق کرتے ہیں۔‘

نیٹ بلاکس نے مزید کہا کہ اتوار کو دوپہر کے بعد تک سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی بند رہی لیکن مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کے صارفین موبائل اور وائی فائی کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کر سکتے ہیں۔

میانمار میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹام اینڈریوز نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ انٹرنیٹ پابندی خطرناک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی۔ ان کے بقول: ’اب جرنیل انٹرنیٹ تک رسائی کو عملی طور پر بند کرکے مزاحمت کی شہری تحریک کو مفلوج کرنے اور بیرونی دنیا کو تاریکی میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا