پاکستان میں ہر مسئلے کا حل ٹیلی ویژن پر ہی آ کر حل کیوں کیا جاتا ہے؟ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا انہیں عدالتیں اور تحقیقاتی ادارے بند کرکے ہر مقدمہ اب ٹی وی پر لڑنا چاہیے۔ میشا شفیع اور علی ظفر کے بعد اب فوج بھی پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے خلاف اپنا مقدمہ ٹی وی کے ذریعے عوامی عدالت میں لے آئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی ان انتہائی حساس معاملات کے لیے بہترین فورم تھا؟
پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جس قسم کے سنگین الزامات پی ٹی ایم پر عائد کیے وہ اگر درست ہیں تو ٹی وی پر لانے کی بجائے انہیں عدالت میں کیوں نہیں لایا گیا؟ کیا شواہد کی صحت کمزور ہے یا پھر فوج اسے باضابطہ طور پر عدالت میں لے جانا نہیں چاہتی؟ کیوں اتنی سنگین باتیں کسی مذاکرات کی میز کے گرد بیٹھ کر نہیں کی گئیں؟ کیوں فیصلہ کرنے کی طاقت رکھنے والی قوتیں پی ٹی ایم کے ساتھ بات چیت نہیں کرنا چاہ رہیں؟ دونوں کے درمیان مذاکرات کے دور پشاور اور دیگر مقامات پر ہوئے، لیکن یہ جاری کیوں نہیں رہ سکے؟
کیا بات چیت کا امکان ختم؟
بات حیت کا امکان تو کسی وقت بھی ختم نہیں ہوتا۔ خونی جنگوں میں بھی اچانک مذاکرات کا عمل شروع ہوسکتا ہے جیسے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان حالیہ دنوں میں دوحہ ملاقاتیں اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ لیکن پاکستان فوج اور پی ٹی ایم کے معاملے میں مشکل یہ ہے کہ دونوں اپنے اپنے سخت موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کی بات سننے کو بظاہر دونوں تیار نہیں۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ دونوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف تند وتیز بلکہ تلخ بیانات محض فضا کو گندا کر رہے ہیں۔
ماضی قریب میں مذاکرات کا ایک عمل شروع ہوا تھا لیکن بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا اور دوبارہ بات چیت شروع کرنے میں بھی مسائل ہیں۔ خیبر پختونخوا کے گورنر اور وزیراعلیٰ کی قیادت میں ایک کمیٹی پی ٹی ایم کی راہ تک رہی ہے، تاہم اس تحریک کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی میں چاروں صوبوں اور مرکز کے فیصلہ کرنے کی طاقت رکھنے والوں کو شامل کیا جائے ورنہ محض ملاقاتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ موجودہ حالات میں مذاکرات کا امکان کم دکھائی دے رہا ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ امکان مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔
پی ٹی ايم کس حد تک ذمہ دار ہے؟
پی ٹی ایم کا لہجہ یقیناً پہلے سے تلخ رہا ہے۔ اس کے موقف میں کوئی نرمی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے، بقول فوجی ترجمان پی ٹی ایم کے تین بڑے مطالبات پر کافی پیش رفت ہوئی ہے اور اپبنی پریس کانفرنس میں انہوں نے اس کی کچھ تفصیل بھی دی لیکن یہ ابھی تک پی ٹی ایم کے موقف میں لچک نہیں لاسکی ہے۔ قبائلی علاقوں میں حالات کافی بہتر ہوئے ہیں۔ چوکیاں کم ہوئی ہیں، بعض لاپتہ افراد واپس لوٹ آئے ہیں لیکن پی ٹی ایم مطمئن نہیں ہوئی۔ شمالی وزیرستان میں پاکستان فوج کے مطابق سرحد پار سے تازہ حملے میں تین فوجی ہلاک ہوگئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان، داعش اور چند دیگر شدت پسند تنظیمیں موجود ہیں تو کیا جزوی بہتری قابل تعریف ہے یا نہیں؟
حکومت کہاں کھڑی ہے؟
سیاسی حکومت سے زیادہ بظاہر فوج اس معاملے پر بولی ہے۔ ماسوائے وزیراعظم عمران خان کے، جنہوں نے گذشتہ دنوں سابق قبائلی ضلع میں ایک جلسہ عام میں تقریر کے دوران اس معاملے پر بات کی لیکن ان کی حکومت کی پالیسی مکمل طور پر اب تک واضح نہیں ہوسکی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسے سیاسی سے زیادہ سکیورٹی مسئلہ قرار دے کر فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے یا پھر پی ٹی ایم کو شکایات زیادہ تر سکیورٹی اداروں سے ہیں تو یہ معاملہ ان ہی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ لیڈ فوج ہی کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ صوبائی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہیں۔