سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق امریکی فوج نے شام کے مشرقی علاقے میں ایرانی حمایت یافتہ فورسز کے ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں 22 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ یہ حملہ عراق میں موجود امریکی فوجیوں پر ہونے والے حالیہ راکٹ حملوں کے بعد ایک پیغام کے طور پر کیا گیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد یہ امریکہ کا ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کے خلاف پہلا حملہ ہے۔ پینٹاگون کے مطابق یہ حملہ عراق اور شام کی سرحد پر واقع ٹھکانوں پر کیا گیا ہے جن میں کئی ’تنصیبات‘ تباہ ہوئی ہیں۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’صدر بائیڈن کی ہدایات پر امریکہ نے مشرقی شام میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کے زیر استعمال تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ حملے امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف عراق میں کیے جانے والے حالیہ حملوں اور ان کو لاحق خطرات کا ردعمل ہیں۔‘
سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کم سے کم 22 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔ حملے میں اسلحے کے تین ٹرکوں کو نشانہ بنایا گیا جو البوکمال کے علاقے کے قریب عراق سے آ رہے تھے۔
آبزرویٹری کے مطابق سرحد پر موجود چوکیاں بھی اس حملے میں تباہ ہو گئیں۔
سیرین آبزویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کا تعلق عراقی ریاست کے حمایت یافتہ حشد الشعبی فورس سے تھا جو کہ ایران سے تعلق رکھنے والے تمام چھوٹی تنظیموں کا ایک بڑا گروہ ہے۔
جان کربی کا کہنا تھا کہ یہ تنصیبات کتائب حزب اللہ اور کتائب سید الشہدا نامی گروہوں کے زیر استعمال تھیں۔ یہ دونوں گروپ بھی حشد الشعبی کا حصہ ہیں۔
شام کے سرکاری ٹیلی ویژن پر شامی حکومت کے اتحادی ان جنجگوؤں کے خلاف ’امریکی جارحیت‘ کی مذمت کی گئی۔
15 فروری کو کرد علاقائی حکومت کے دارالحکومت اربیل میں فوجی کمپلیکس پر ہونے والے ایسے ہی ایک حملے میں ایک شہری اور ایک غیر ملکی ٹھیکیدار ہلاک ہو گیا تھا جبکہ کئی ٹھیکیدار اور ایک امریکی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔
یہ حملے بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایک چیلینج کے طور پر سامنے آئے تھے خاص طور پر ایسے وقت میں جب بائیڈن انتظامیہ ایران سے جوہری مذاکرات کی ہامی بھر چکی ہے۔
گذشتہ ہفتے امریکی انتظامیہ نے سال 2015 کی جوہری ڈیل کو بچانے کے لیے ایران کے ساتھ یورپی اتحادی کی سرکردگی میں مذاکرات کی پیش کش کی ہے جو سابق صدر ٹرمپ کی یکطرفہ علیحدگی کے بعد ناکامی کے دہانے پر تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن امریکی انتظامیہ نے خطے میں ایران کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کو برداشت نہ کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
گو کہ کتائب حزب اللہ نے 15 فروری کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی لیکن امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ حملے کی ذمہ داری کتائب حزب اللہ پر عائد ہوتی ہے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ہدف کو نشانہ بنانے کے حوالے سے پر اعتماد ہیں۔ ہم جانتے ہیں ہم کسے نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ ہدف اسی شیعہ ملیشیا کے زیر استعمال تھا جس نے یہ حملہ کیا تھا۔‘
یہ مانا جا رہا ہے کہ ایران ایک سال قبل امریکی حملے میں نشانہ بنائے جانے والے جنرل قاسم سلیمانی کا بدلہ لینے کے موقعے کی تاک میں ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا سوموار کو کہنا تھا کہ ’امریکہ خطے میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کی جانب سے امریکی اہداف پر حملے کی ذمہ داری ایران پر عائد کرے گا لیکن ہم ایسے اقدامات گریز کریں گے جو عراق کو عدم استحکام کا شکار کر دیں۔‘
پینٹاگون کے ترجمان نے امریکی حملوں کو ’متناسب‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سفارتی معیارات کو مدنظر اور خطے میں امریکی اتحادی کے ساتھ مشورے کے بعد کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کارروائی ان شکوک کو ختم کرتی ہے کہ صدر بائیڈن امریکی اور اتحادیوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم نے یہ کارروائی اس انداز میں کی ہے جس کا مقصد مشرقی شام اور عراق کی مجموعی صورت حال میں کشیدگی میں کمی لانا ہے۔‘