آئندہ بدھ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں سب سے اہم اور دلچسپ مقابلہ قومی اسمبلی میں ہونے جا رہا ہے، جہاں سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر لیڈر یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ وفاقی دارالحکومت کی واحد جنرل نشست کے لیے نبرد آزما ہوں گے۔
گیلانی کو، جو قومی اسمبلی کے سپیکر اور وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں، اپوزیشن اتحاد پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کی حمایت حاصل ہے جبکہ عبدالحفیظ شیخ کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادی کھڑے ہیں۔
اسلام آباد سے سینیٹ نشستوں کے الیکٹورل کالج قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کی اکثریت کے باعث عبدالحفیظ شیخ مضبوط امیدوار نظر آتے ہیں۔ تاہم سینیٹ انتخابات اور پس منظر میں ہونے والے سیاسی داؤ پیچ سے باخبر صحافی گیلانی کی جیت کے امکانات کو رد نہیں کرتے۔
تجزیہ کار مظہر عباس نے گیلانی کی کامیابی کے امکان کا ذکر کیے بغیر کہا کہ حکومتی جماعت میں نظر آتی پریشانیاں ثابت کرتی ہیں کہ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔ اسلام آباد میں ’ہم سب‘ نامی ویب سائٹ کے ڈائریکٹر نیوز میاں آصف کے مطابق گیلانی صاحب سینیٹ انتخابات میں اپ سیٹ کر سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے درمیان ہفتے کو ہونے والے ایک معاہدے کا حوالہ بھی دیا، جس کے تحت پی پی پی نے سینیٹ انتخابات میں دو نشستوں پر اپنے امیدوار ایم کیو ایم کے حق میں دست بردار کرنے کی حامی بھر لی ہے۔
تاہم بعض تجزیہ کار گیلانی کی کامیابی کے امکانات کو رد کرتے ہیں اور اسلام آباد سے جنرل نشست حکومتی اتحاد کو جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ صحافی اور سیاسی وی بلاگر حرا وحید کے خیال میں ایسا ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ حکومتی ایم این ایز کا اتنی بڑی تعداد میں فلور کراسنگ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
اسلام آباد سے سینیٹ کی کسی بھی نشست کے لیے صرف قومی اسمبلی کے اراکین (ایم این ایز) ووٹ ڈالتے ہیں، جہاں صوبائی اسمبلیوں کے برعکس ہر ایم این اے کا ایک ووٹ ہوتا ہے اور الیکشن کے دن ایوان میں موجود زیادہ اراکین کی حمایت (یعنی زیادہ ووٹ) حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب قرار پاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومتی ایم این ایز 180 اور اپوزیشن کے 160 ہیں۔
سینیٹ انتخابات میں قومی اسمبلی کے تمام (340) اراکین کے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی صورت میں 171 ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار جیت کا حق دار ہو گا جبکہ کم ووٹ ڈالے جانے کی صورت میں بھی سادہ اکثریت ہی کامیابی کا راستہ بنے گی۔
یوسف رضا گیلانی کیسے جیت سکتے ہیں؟
گیلانی اسی کی دہائی سے عملی سیاست میں فعال ہیں، جس کے باعث ان کے اکثر سیاسی جماعتوں میں تعلقات ہیں جبکہ وہ وزیر اعظم، سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر جیسے اہم عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
آصف میاں کا کہنا تھا کہ گیلانی اچھے مزاج کے دوست پرور انسان ہیں، انہوں نے کبھی کوئی دشمنی نہیں بنائی اور یہی ان کا پلس پوائنٹ ہے۔ سیاسی اثر رسوخ کے علاوہ جنوبی پنجاب کے معروف سید خاندان سے ہونے کی وجہ سے بھی ان کی عزت اور احترام کیا جاتا ہے۔
لاہور کے ایک صحافی کا کہنا تھا کہ گیلانی کی دوسری سیاسی جماعتوں کے بعض رہنماؤں کے ساتھ رشتہ داریاں بھی ہیں، جس کا انہیں سینیٹ انتخابات میں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ وہ موجودہ پیر آف پگاڑا پیر صبغت اللہ شاہ راشدی کے خالہ زاد بھائی ہونے کے علاوہ ان کے چھوٹے بھائی پیر صدرالدین شاہ کے سمدھی بھی ہیں۔
یاد رہے کہ پیر آف پگاڑا سندھ سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے روحِ رواں ہیں اور جی ڈی اے کے قومی اسمبلی میں تین ایم این ایز ہیں۔
اسی طرح تحریک انصاف کے ناراض مگر اہم رہنما جہانگیر خان ترین کی بیگم گیلانی کی ماموں زاد بہن ہیں جبکہ بہاولپور سے تحریک انصاف ہی کے رکن قومی اسمبلی مخدوم سمیع الحسن گیلانی (اوچ شریف والے) بھی ان کے عزیز ہیں۔
وہ راولپنڈی کے مشہور پیر آف گولڑہ شریف کے بھی عزیز ہیں، جبکہ اٹک کے پیر آف مکھڈ، جو سابق صدر ایوب خان کے بھی پیر تھے، سے بھی ان کی رشتہ داری ہے۔ صدر ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان اس وقت وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر ہیں۔
سینیئر صحافی عامر متین کے مطابق: ’ضروری نہیں کہ سیاست دانوں کی آپس کی رشتہ داریاں انتخابات میں کوئی فائدہ پہنچائیں، لیکن اس امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘
آصف میاں نے کہا کہ پی پی پی کے کئی لوگ اس وقت تحریک انصاف کے ایم این ایز ہیں اور وہ آئندہ عام انتخابات میں پی ایم ایل این کے ٹکٹ کی خواہش رکھتے ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایسے ایم این ایز مسلم لیگ ن کے کہنے پر گیلانی کو سینیٹ انتخابات میں ووٹ دے سکتے ہیں جبکہ بلوچستان سے بھی حکومتی اتحاد سے تعلق رکھنے والے بعض ایم این ایز کے ووٹوں کا اپوزیشن کے امیدوار کی طرف جانے کا امکان ہے۔‘
کراچی کے ایک صحافی کا کہنا تھا کہ جی ڈی اے اور ایم کیو ایم پاکستان بھی تحریک انصاف سے ناراض لگتے ہیں، جس کا بڑا ثبوت ہفتے کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان سینیٹ انتخابات سے متعلق معاہدے ہے۔
میاں آصف کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی جنرل سیٹ حاصل کرنے کے لیے اپوزیشن کے ووٹوں کے علاوہ صرف 11 ووٹوں کی ضرورت ہے جو وہ آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے معاہدے کے نتیجے میں آخرالذکر کے سات ووٹ بھی ادھر آگئے تو گیلانی کامیابی سے صرف چار ووٹ دور ہیں۔‘
یاد رہے کہ جب یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیر اعظم تھے تو پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ ان کے ڈپٹی وزیر اعظم تھے جبکہ پیپلز پارٹی سے ناراض ہو کر پی ٹی آئی جانے والے کئی اراکین قومی اسمبلی کے ساتھ بھی گیلانی کے اچھے مراسم بتائے جاتے ہیں۔
اسلام آباد کی سیٹ کیوں اہم ہے؟
اکثر تجزیہ کاروں کی نظر میں معاملہ بہت سادہ ہے کیونکہ ان انتخابات کا براہ راست تعلق قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن بینچز پر بیٹھے اراکین سے ہے یعنیٰ جس دھڑے کے ایم این ایز زیادہ ہیں اسی کا امیدوار جیتے گا۔
تاہم کچھ دوسرے تجزیہ کار اس معاملے کو اتنا سادہ قرار نہیں دیتے بلکہ ان کے نزدیک یہ اسلام آباد کی جنرل سیٹ کا مقابلہ سینیٹ انتخابات سے بڑھ کر دو بیانیوں کی جنگ کا روپ اختیار کر گیا ہے۔ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کا گیلانی کو میدان میں نکالنا ہی ثابت کرتا ہے کہ یہ ایک اہم مقابلہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ان انتخابات میں دونوں حریفوں کے سٹیکس شامل ہیں اور اس ایک نشست پر کسی کی بھی شکست دراصل بیانیے کی ہار ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گیلانی کی ہار آصف زرداری کی شکست اور عبدالحفیظ شیخ کی کامیابی وزیر اعظم عمران خان کے حق میں ایوان سے اعتماد کا ووٹ ثابت ہو گا۔
آصف میاں کا کہنا تھا کہ اس ایک نشست پر جیت یا ہار اپوزیشن اور حکومت کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے کیونکہ یوسف رضا گیلانی کی جیت کے معنیٰ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ایک طرح سے عدم اعتماد ہو گا۔