پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے انتخابات میں ووٹنگ کے طریقہ کار سے متعلق پیر کو سپریم کورٹ کی رائے نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، جس کے تحت سینیٹ الیکشن کے بعد ان کے ایماندارانہ اور شفاف ہونے سے متعلق تحقیقات ہو سکتی ہیں۔
وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو شفاف انتخابات کے لیے اقدامات کرنے بشمول قابل شناخت بیلٹ پیپر (traceable ballot) کی ہدایت کی ہے۔
قابلِ شناخت بیلٹ پیپر کے ذریعے یہ معلوم ہو سکے گا کہ کس نے کس کو ووٹ دیا۔ فواد چوہدری نے پیر کو ایک میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ اگر حکومت کرنسی نوٹ چھاپ سکتی ہے تو 15، 16 سو بیلٹ پیپر کیوں نہیں چھاپ سکتی۔
یاد رہے کہ آج صبح سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے سنائی جو سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے کروانے کے حق میں ہے۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی ہدایت دی ہے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے ’کہا ہے کہ بیلٹ سیاسی جماعتوں کے لیے خفیہ رہے گا لیکن الیکشن کمیشن کے لیے خفیہ نہیں رہے گا۔ اس لیے اگر ہارس ٹریڈنگ یا ووٹوں کی فروخت کے الزامات لگے تو الیکشن کمیشن تحقیقات کر سکتا ہے۔‘
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے وکیل عمران شفیق کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنی رائے کے پہلے پیراگراف میں ’آئین اور قانون کے تحت‘ لکھ کر حکومت کو فائدہ پہنچایا۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون سے مراد ایکٹ آف پارلیمنٹ اور صدارتی آرڈیننس دونوں ہوتے ہیں اور حکومت آرڈیننس کے ذریعے کوئی بھی قانون لا سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے ووٹ کی رازداری کو مطلق اور ہمیشہ کے لیے قرار نہ دے کر دراصل الیکشن کمیشن کے ہاتھ کچھ بھی کرنے کے لیے ایک آلہ تھما دیا ہے جس کے استعمال کی آزادی بھی دے دی گئی ہے۔
عمران کے مطابق: ’اب حکومت سپریم کورٹ کی اس رائے کے تحت جب چاہے صدارتی آرڈیننس کے تحت سینیٹ انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی تحقیقات اپنی مرضی کے طریقے سے کروا سکتی ہے۔‘
’کوئی اور طریقہ ڈھونڈنا پڑے گا‘
تاہم دوسری جانب سپریم کورٹ کے وکیل عارف چوہدری کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ووٹ کی پرچی کے علاوہ کوئی اور طریقہ ڈھونڈنا پڑے گا۔
عارف نے کہا کہ ان تحقیقات میں سینیٹ انتخابات میں ڈالا جانے والا ووٹ ثبوت کے طور پر استعمال نہیں ہو سکے گا کیونکہ سپریم کورٹ نے کوئی ایسا طریقہ نہیں بتایا کہ اسے کیسے قابل شناخت بنایا جا سکتا ہے۔
ان کے خیال میں ووٹوں کے شفاف استعمال سے متعلق تحقیقات کی صورت میں الیکشن کمیشن کو ووٹ کی پرچی کے علاوہ دوسرے ثبوت تلاش کرنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی حالیہ رائے کے تحت سینیٹ انتخابات کے بعد ووٹوں کے ایماندارانہ اور شفاف استعمال کا سوال اٹھ سکتا ہے اور اس متعلق تحقیقات بھی ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ان انتخابات کے بعد کوئی بھی الیکشن کمیشن کو ووٹوں کی تحقیقات سے متعلق درخواست کر سکتا ہے اور ثابت ہونے کی صورت میں فلور کراسنگ کے قانون کے تحت رکن اسمبلی کے خلاف ایکشن بھی لیا جا سکتا ہے۔‘
’بیلٹ پیپر کی شناخت ممکن نہیں‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور وکیل نیّر بخاری نے حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کی رائے پر خوشی کے اظہار پر حیران ہوتے ہوئے کہا کہ بیلٹ پیپر کی شناخت ممکن ہی نہیں اور الیکشن کمیشن بھی آئین اور قانون کے تحت کام کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین میں ترمیم کیے بغیر بیلٹ پیپر کی شناخت سے متعلق کوئی کارروائی یا تحقیقات نہیں کی جا سکتیں۔
الیکشن کمیشن کے سابق وفاقی سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی رائے کے تحت الیکشن کمیشن ووٹ کی شفافیت سے متعلق تحقیقات کے سلسلے میں ریاستی اداروں سے معاونت حاصل کر سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں الیکشن کمیشن کو ریاستی اداروں کی مدد سے سینیٹ الیکشن میں کرپشن کو روکنے کی ہدایت کی ہے اور اس طرح انتخابات کروانے والے ادارے کو بے پناہ اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل عبدالطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور اسی لیے وہ ہمیشہ سے الیکٹرانک ووٹنگ کے حمایتی رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ووٹر اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں تو اس پر ان کی پکڑ نہیں ہو سکتی، تاہم انتخابات میں کرپشن کو ختم ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ کی رائے ’تجاوز‘ ہے
وکیل عمران شفیق نے سپریم کورٹ کی رائے عدالت کو اعلیٰ عدالت کے اختیار سے تجاوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدارت ریفرنس میں پوچھے گئے سوال کا جواب دینے کی بجائے الیکشن کمیشن کو لمبی چوڑی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اکثریتی رائے کی مخالفت کرنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی نے صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے سوال سیاسی ہونے کے باعث ہی جواب دینے سے انکار کیا ہے۔
عمران شفیق نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی سمجھتے ہیں کہ صدارتی ریفرنس میں پوچھا جانے والا سوال آئینی یا قانونی نہیں بلکہ سیاسی ہے اور سپریم کورٹ کو اس کا جواب نہیں دینا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنی رائے 1967 کے ایک فیصلے کی بنیاد پر بنائی جبکہ عدالت کے سامنے تفصیلی دلائل پیش کیے گئے تھے اور انہی سے ذہن سازی ہونا چاہیے تھی۔
عمران شفیق کے خیال میں رائے سے حکومت کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا اور سینیٹ انتخابات کے بعد ووٹوں کی شفافیت سے متعلق صدارتی آرڈیننس کا آنا بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔