گلگت بلتستان میں بالخصوص شینا بولنے والی آبادیوں میں سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی صدیوں پرانی رسم ’شاپ‘ ادا کی جاتی ہے۔
شاپ کے معانی دعائیہ کلمات ادا کرنے کے ہیں اور اس سلسلے میں محلوں کے نوجوان ٹولیوں کی شکل میں گھروں میں جاتے ہیں اور گھر کے اہل خانہ کے لیے خیر و برکت کی دعائیں مانگتے ہیں۔ میزبانوں کو تفریح فراہم کرنے کے لیے موسیقی اور روایتی رقص کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جس کے عوض ’شاپ‘ کی رسم ادا کرنے والے نوجوانوں کو گھر سے اناج اور نقدی دی جاتی ہے۔
یہ رسم گلگت ہنزہ، نگر اور غذر کے علاقوں میں دعائیہ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ سالانہ ادا کی جاتی ہے۔ اس رسم میں چہرے پر ماسک چڑھائے ایک نوجوان سے ’دادا‘ کا کردار ادا کرایا جاتا ہے جسے ’شاپ‘ ڈالنے والی ٹیم میں سرپرست اور قائد کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
رسم کے آغاز کے متعلق صحیح علم کسی کو نہیں ہے البتہ یہ رسم ماضی میں بھی علاقائی مسائل کو فنکارانہ انداز میں پیش کرتی رہی ہے ۔
گلگت بلتستان کے معروف صحافی ایمان شاہ بھی اس رسم کے آغاز کی تاریخ سے متعلق حتمی رائے نہیں رکھتے ہیں تاہم وہ اس رسم کو ایسی رسومات میں شمار کرتے ہیں جن میں وقت کے ساتھ بتدریج بہتری آئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کسی کو اچھے الفاظ سے یاد کرنا اور دعائیہ کلمات ادا کرنا اچھی رسم ہی ہوسکتی ہے۔
گذشتہ تین چار سالوں میں اس رسم کی ادائیگی میں بہتری آئی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ پرانے زمانے سے یہ رسم سردیوں میں ادا کی جاتی رہی ہے اور خشک گوشت کو سکھا کر نسالو بنائے جانے کے بعد اس خشک گوشت سے رسم ادا کرنے والوں کی تواضع کی جاتی تھی یا انہیں تحفے میں دیا جاتا تھا۔
اس رسم میں ایک جدت یہ آئی ہے کہ اب اجناس کی بجائے نقد رقم دی جاتی ہے اور جتنی زیادہ رقم دی جائے اتنی ہی بہتر انداز میں دعا کی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گلگت بلتستان کے سماجی کارکن اور ثقافتی امور پر نظر رکھنے والے مظہر علی کہتے ہیں کہ یہ رسم قبل از اسلام سے اس علاقے میں منائی جاتی ہے اور اسلام کے بعد اس میں لفظ برکت سمیت دیگر استعارے شامل ہوگئے ہیں۔
مظہر علی سمجھتے ہیں کہ زمانہ قدیم سے یہ علاقہ سلک روٹ کی وجہ سے دیگر اقوام کی توجہ کا مرکز تھا اور اسی وجہ سے یلغار کی زد میں بھی رہتا تھا۔
اس رسم کو منانے کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہے کہ سرحدی علاقوں سے حملہ آور ہونے والوں کے خلاف لوگ چوکنے اور مصروف عمل رہتے ہیں اور دفاعی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے یہ عمل کیا جاتا۔
قبل ازیں رسم ’شاپ‘ بھی گلگت بلتستان کے معروضی حالات کا شکار ہو چکی تھی۔ فرقہ واریت کی فضا نے ہم آہنگی اور بھائی چارے کے ساتھ ساتھ اس رسم کو بھی متاثر کیا، لوگ اسے ادا کرنے سے قاصر ہوئے اور اپنے اپنے محلوں تک محدود ہوگئے۔
اس رسم کی بحالی میں شعرا اور گلوکاروں کا اہم کردار ہے جنہوں نے علاقے کی نامور شخصیات کے گھروں میں اس رسم کی ادائیگی کرکے نوجوانوں کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ ثقافت سماجی زندگی کا اہم ترین پہلو ہے اور اس سے انسان کی شناخت ہوتی ہے۔
سماجی کارکن مظہر علی اس رسم پر مذہب کی مداخلت کے متعلق کہتے ہیں کہ اسلام سے قبل یہ رسم مخصوص الفاظ اور استعاروں کے ساتھ ادا کی جاتی تھی تاہم اسلام کی آمد کے ساتھ ساتھ اس رسم کے الفاظ اور استعاروں میں تبدیلی آگئی اور شینا استعاروں کی جگہ عربی استعاروں نے لے لی۔
مظہر علی کہتے ہیں کہ جب گلگت کے حالات خراب ہوگئے تو اس کا اثر اس رسم پر بھی پڑا، جس کی وجہ سے یہ رسم معدوم ہونے کے قریب تھی تاہم اب اس کو معدومیت سے نکال کر بحال کردیا گیا ہے۔
اس رسم کی وجہ سے مذہبی اختلافات اور منافرت کم ہونے میں مدد ملتی ہے کیونکہ لوگ آپس میں مل بیٹھتے ہیں اور علاقہ بھی امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ حکومتی سطح پر اس رسم کی سرپرستی کرنے کی ضرورت ہے۔
صحافی ایمان شاہ اس رسم اور اس کی ارتقائی مرحلے کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ صرف ایک رسم نہیں ہے بلکہ ہماری ثقافت ہے جس کے ذریعے لوگ آپس میں مل بیٹھتے ہیں جس سے دوریاں ختم ہوجاتی ہیں۔
فرقہ وارانہ حالات سے گزرنے کے بعد یہ رسم لوگوں کو آپس میں ملانے کا سبب بن سکتی ہے اور اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ محکمے اور حکومت اس کی سرپرستی کرے۔