صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی پولیس نے تفتیش کے بعد بتایا کہ چترال کی جس لڑکی نے بلوچستان کے ایک رکن قومی اسمبلی سے شادی کی وہ کم عمر نہیں لہٰذا یہ شادی کم عمری کے زمرے میں نہیں آتی۔
چترال کی ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم انجمن دعوت وعزیمت نے مقامی پولیس کو ایک شکایت درج کرائی تھی کہ مذکورہ ’14 سالہ لڑکی کی بلوچستان کے ایک 60 سالہ رکن قومی اسمبلی کے ساتھ شادی ہوئی ہے، جو پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔‘
شکایت میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مذکوہ لڑکی کم عمر اور چترال کے ایک سرکاری سکول میں نویں جماعت کی طالبہ ہے۔ پولیس نے اس شکایت پر تفتیش شروع کی اور نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) سے رابطہ کیا۔
چترال پائین کی پولیس سربراہ سونیا شمروز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس اہلکاروں کو ہدف دیا گیا تھا کہ لڑکی کی عمر کا تعین کیا جائے۔
انھوں نے بتایا کہ نادرا ریکارڈ کے مطابق لڑکی کا شناختی کارڈ 15 فروری، 2021 کو بنا، جس میں ان کی تاریخ پیدائش آٹھ فروری، 2003 درج ہے لہٰذا لڑکی شادی کے وقت کم عمر نہیں تھی۔
سونیا کے مطابق پولیس نے لڑکی کے شناختی کارڈ کی نادرا سے تصدیق بھی کرائی اور خاندان کا ریکارڈ بھی چیک کیا گیا جو درست پایا گیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ شناختی کارڈ نکاح کے بعد بنایا گیا ہو اور اس میں عمر زیادہ درج کرائی گئی ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ بوگس طریقے سے شناختی کارڈ میں کم عمر لکھنے کی تصدیق کرنا نادرا کی ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ جہاں تک لڑکی کے شناختی کارڈ کا تعلق ہے وہ نادرا سے تصدیق شدہ ہے اور پولیس کو اسی کے متعلق حقائق جاننا تھے۔
لوئر چترال کے پولیس سربراہ نے اس حوالے سے صوبائی کمیشن برائے سٹیٹس آف وومن کو ایک خط بھی بھیجا (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) جس میں لکھا گیا ہے کہ 16 فروری کو چترال پولیس سٹیشن میں اس شادی کے حوالے سے شکایت درج کرائی گئی تھی۔
خط کے مطابق پولیس نے لڑکی کے مستقل پتے پر بھی جا کر دیکھا لیکن گھر پر تالا لگا ہوا تھا اور گھر والے وہاں موجود نہیں تھے۔ اس کے بعد پولیس نے تفتیش کر کے پتہ لگایا کہ لڑکی کے اہل خانہ پشاور گئے ہیں اور نکاح بھی وہیں ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خط کے مطابق تفتیش کے دوران لڑکی کے والد کو بلایا گیا، جنھوں نے لڑکی کا شناختی کارڈ اور نکاح نامہ پیش کیا، شناختی کارڈ کے مطابق لڑکی کی عمر 18 سال سے زائد ہے اور اس نے اپنی مرضی سے شادی کی۔
پولیس کو پیش کیے گئے نکاح نامے میں شادی کی تاریخ 21 فروری، 2021 درج ہے جبکہ لڑکی کا شناختی کارڈ 15 فروری کو بنایا گیا۔ نکاح نامے کے مطابق حق مہر 32 لاکھ روپے رکھا گیا۔
چائلڈ رائٹس موومنٹ کے رکن اور سماجی کارکن قمر نسیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ دستاویزات کے مطابق یہ نکاح قانون کے مطابق ہوا تاہم ’نکاح کے بعد لڑکی کا شناختی کارڈ جاری ہونا شکوک وشبہات پیدا کرتا ہے۔‘
نسیم کے مطابق یہ خوش آئند بات ہے کہ پولیس اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اس کیس میں دلچسپی لی لیکن حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد کم عمری سے متعلق مجوزہ قانون اسمبلی میں پیش کر کے اس کو پاس کرایا جائے۔