ڈھلتی بہار کے آخری دنوں کی ایک ابر آلود دھندلائی دھندلائی سی صبح میں، میں شہرِ اقتدار اسلام آباد کی سڑکوں پر مصروفِ سفر تھی اور منزل تھی قومی اسمبلی جہاں وزیرِ اعظم عمران خان اپنے دورِ حکومت کے محض تین سال مکمل ہونے سے پانچ ماہ پہلے بہ امرِ مجبوری اعتماد کا ووٹ لینے جا رہے تھے۔
شہرِ اقتدار اسلام آباد میں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کے موسم اور لوگوں کا مزاج ہم آہنگ ہے، موسم بدلتے دیر نہیں لگتی اور یہی کچھ لوگوں کا معاملہ ہے بلکہ سیاست اور اقتدار کا بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صبح کے بادشاہ شام کے گدا میں ڈھلتے پلک جھپکتے کا ہی وقت لگتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ حکومتی ایوانوں میں گزشتہ کئی روز سے عمومی اور ہفتے کے روز کے اعتماد کے ووٹ سے ایک رات پہلے تو خصوصی ہلچل اور تھرتھلی مچی ہوئی تھی۔
ڈھونڈ ڈھونڈ کر، گن گن کر اور ناپ تول کر بندے پورے کیے جا رہے تھے۔ قریب قریب یقین تو یہی تھا کہ اعتماد کے پورے ووٹ مل جائیں گے لیکن دھڑکا بہرحال ایک موجود تھا کیوں کہ حفیظ شیخ کی سینیٹ جیت پر بھی یقین تو تھا مگر انہونی ہوئی اور ایک سیٹ کے طوفان نے سونامی کو بھی مات دے دی۔
قومی اسمبلی کی پیچ در پیچ راہداریوں سے گزرتے حکومتی اراکین کے بظاہر خوش گپیاں لگاتے چہروں پر بھی نظر پڑتی رہی جو کھلی کھلی مسکراہٹوں کے ساتھ ایک دوسرے سے محوِ گفتگو بھی تھے مگر کن اکھیوں سے ہر جانب کوئی ایسا اشارہ ڈھونڈنے کی کوشش بھی کر رہے تھے جو انہیں ’سب اچھا ہے گھبرانا نہیں ہے‘ کی یقین دہانی کروا سکے۔
صبح گیارہ سے دوپہر بارہ بجے تک ایوان کے فلور پر قدم رکھتا ہر حکومتی رکن وہاں پہلے سے موجود اراکین کے لیے ضمانت کا باعث بنتا کہ گنتی کے نمبرز اوپر بڑھ رہے ہیں۔
بارہ بجے تک ایوان میں حکومتی ایم این ایز کی اچھی خاصی تعداد پہنچ چکی تھی اور اطمینان کی ایک غیر محسوس سی لہر فلور پر پائی جا رہی تھی۔
بارہ بج کر آٹھ منٹ پر وزیرِ اعظم عمران خان ہلکے خاکی مائل لباس میں ملبوس اپنے مخصوص انداز میں تسبیح ہاتھ میں لئے ایوان میں داخل ہوئے تو حکومتی ایم این ایز کے فرطِ جذبات میں نعرے آسمان کو چھونے لگے۔ حکومتی بینچز پر موجود کوئی بھی رکن ایسا نہ تھا جس نے ہاتھ ہوا میں بلند کر کے فلک شکاف نعرے لگانے میں کسر نہ چھوڑی ہو اور میں حیرانی سے تک رہی تھی کہ انہی میں سے ہی تو وہ سولہ انمول رتن ہوں گے جو تھوڑے ہی گھنٹوں پہلے اسی عمران خان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے نہ صرف اپنے لیڈر کی سیاسی سبکی کا باعث بنے بلکہ حکومت کو عدم استحکام سے بھی دوچار کیا کہ وزیرِ اعظم کو مجبور ہو کر انہی بکے ہوئے ’مجرم‘ اراکین سے اپنی اہلیت و قابلیت کی تصدیق کروانی پڑی اور منتوں مرادوں سے ملی حکومت بچانا پڑی۔
180 میں سے 178 کی بڑی برتری کے ساتھ اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کم از کم چھ ماہ کے لیے ایوان کے اندر اپنی حکومت تو بچا لی اور شاید حفیظ شیخ والی چال کی شکست کا بدلہ بھی سیاسی حریف پی ڈی ایم سے لے لیا مگر کس قیمت پر۔۔۔۔؟
اخلاقی بنیادوں پر یوسف رضا گیلانی کی جیت اور سولہ ایم این ایز کا سرک جانا بھی حکومت پر عدم اعتماد کی دلیل تھا۔ سیاست اور حکومت اخلاقی بنیادیں آئینی یا قانونی قدغنوں اور پابندیوں سے بھی زیادہ پائیدار اور گہری ہوتی ہیں اور اگر اخلاقی بنیاد کمزور پڑ جائے تو آئینی یا قانونی حصار کو ٹوٹتے دیر نہیں لگتی۔ آج کا اعتماد کل کے عدم اعتماد میں ڈھلتے چنداں وقت نہیں لگاتا۔
تحریکِ انصاف کی حکومت کو یہ اخلاقی سوال اب مسلسل ہانٹ کرتا
رہے گا کہ جن اراکین کو خود بکا ہوا اور مجرم قرار دیا گیا انہی کے منافقت زدہ اور جھوٹے ووٹوں کی بنیاد پر حکومت کرنا کس حد تک جائز ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صرف یہی نہیں، انتہائی افسوس اور شرم کی بات ہے کہ جس وقت ایوانِ زیریں میں اخلاقیات کی منڈی لگانے والے سولہ اراکین ایک بار پھر منافقت کا لبادہ اوڑھے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری نبھانے کا تاثر دیے چلے جا رہے تھے عین اسی وقت پارلیمان سے چند ہی گز کے فاصلے پر حکمران جماعت کی نوجوان نسل معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کو پاؤں تلے روندے چلی جا رہی تھی۔
جس طرح پی ٹی آئی کے چند نوجوانوں کی طرف سے ن لیگ کی خاتون ایم این اے اور سابق وزیرِ اعظم سمیت دیگر ایم این ایز پر حملہ کیا گیا پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس کیفے ٹیریا کی چھت سے میں یہ افسوسناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ایک طرف ایوان میں وہ لوگ بیٹھے ہیں جنہوں نے اخلاق اقدار کی پرواہ نہ سینیٹ الیکشن کے روز کی تھی اور نہ آج اعتماد کے ووٹ میں کر رہے ہیں تو پھر لامحالہ ایوان سے باہر سڑکوں پر معاشرے میں ہر جگہ ہمیں اخلاقیات کے ایسے ہی جنازے اٹھتے نظر آئیں گے۔ یہ معاشرے کی وہ تنزلی ہے جو کسی بھی اعتماد یا عدم اعتماد سے بالا اور زیادہ سنگین ہے۔
خدانخواستہ اس تنزلی کی طرف ابھی بھی توجہ نہ دی گئی تو یہ معاشرہ جانوروں کے ماحول سے بھی بدتر حالات میں بدل سکتا ہے جہاں اپنی برتری دکھانے کا واحد اصول دوسرے پر حملہ آور ہونا ہے۔ اعتماد یا عدم اعتماد سے بڑھ کر اخلاقی برداشت اور عدم برداشت کے مسئلے پر توجہ دی جائے تو شاید ایوان کے اندر بھی سدھار نظر آ سکے اور عوام میں بھی۔