مارچ پدرسری کے خلاف عروج کا مہینہ ہوتا ہے۔ قبل اس کے ہم یہ بات زیر بحث لائیں کہ ایسا کیوں ہے، پہلے ہم پدرسری کا مطلب جان لیتے ہیں ۔
تو جناب پدرسری کا مطلب ہے ایسا معاشرہ جہاں والد یا گھر کا کوئی مرد خاندان کی نگہداشت کرتا ہے لیکن جدید معاشرے کی خواتین اس کا کچھ یوں مطلب لیتی ہیں ’ایسا معاشرہ جہاں سارے نظام کی باگ ڈور مردوں کے ہاتھ میں ہو اور خواتین کو اس سے دور رکھا جاتا ہو‘۔
گذشتہ چند برسوں سے خواتین کی ایک بڑی تعداد مارچ میں مارچ پر نکلتی ہے۔ زیادہ تر بڑے شہروں کی خواتین اس مارچ کا حصہ بنتی ہیں اور اسی نعرے کا پرچار کرتی نظر آتی ہیں کہ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دیے جائیں اور انہیں کسی بھی صورت مرد حضرات سے کم تر نہ سمجھا جائے۔
بطور مسلمان اور بطور پاکستانی آپ سب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ قرآن اور پاکستان کے آئین میں خواتین اور مردوں میں تفریق نہیں۔
قرآن میں عورتوں اور مردوں کو علیحدہ علیحدہ مخاطب کیا گیا ہے بلکہ ہمیشہ ہی اے ایمان والوں! کہہ کر پکارا گیا۔ اسی طرح ملک کے آئین میں بھی فرد کی بات کی گئی ہے یعنیٰ معاشرے کا ہر فرد برابر ہے۔
اب معاشرے کی بات چل نکلی ہے تو ذرا پاکستانی معاشرے کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں واقعی گھر کا سربراہ مرد ہوتا ہے اور اس کی کفالت میں بیوی بچوں کے علاوہ والدین ہوتے ہیں۔
وہ ہر دُکھ سُکھ اور خوشی وغم کے موقعے پر خرچہ کرتا ہے۔ اپنی آمدنی کا ایک حصہ خصوصی تقریبات کے لیے صرف کرتا ہے اور جب بیٹی یا بہن کی شادی کرنا ہو تو اپنی حیثیت سے بڑھ کر اور بہت مرتبہ اُدھار کا بھار اُٹھا کر جہیز پورا کرتا ہے۔
اب ذرا گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر حالات پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کی نشستیں مخصوص ہیں۔ ان کی عظمت و عزت اور غیرت کے پیش نظر ان کے ساتھ نہ کسی مرد کو بٹھایا جاتا ہے اور نہ ہی خواتین کی طرف سے بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
اگر کسی کمپنی میں شفٹس کی صورت میں نوکری کی جاتی ہے تو نائٹ شفٹ میں صرف مرد حضرات سے ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ اگر مزدوری کی بات جائے تو یہ کام بھی صرف مردوں کے ذمے ہے۔
وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھی آج تک صرف مرد فوجی ہی جان سے گئے۔ ایک بھی نشان حیدر کسی خاتون کو نہیں ملا، اللہ کرے وہ دن بھی آئے کہ ایک نشان فاطمہ کا اعلان کیا جائے اور وطن کی بیٹی کو دیا جائے۔
یوں تو گھرداری میں خواتین کا کوئی ثانی نہیں لیکن زیادہ تر شیف اور ویٹرز بھی مرد حضرات ہی ہیں۔ چونکہ مسلمان ممالک میں پہلی خاتون وزیراعظم کا تعلق ہمارے ہی ملک سے ہے تو مجھے پاکستانی خواتین کی صلاحیتوں پر ذرا برابر شک نہیں۔ بس بات اتنی سی ہے کہ برابری کے حقوق کی دعوے دار پہلے برابری کی بنیاد پر اس معاشرے میں اپنا کردار تو ادا کریں پھر ان کو کسی تحریک اور کسی مارچ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اور معذرت کے ساتھ مارچ میں شامل ان خواتین میں زیادہ تر معاشی طور پر اتنے بے فکر خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں کہ ان کو اپنے کاموں کے لیے خانسامے، درزی اور ڈرائیور میسر ہیں۔
یہاں تک تحریر یک طرفہ نظر آ رہی تھی تو اس لیے ہم نے اپنی دوست سمیرا راجپوت، جو کہ عورت تحریک سے نہ صرف متاثر ہیں بلکہ بطور ایکٹویسٹ بھی اپنا نقطہ نظر رکھتی ہیں، ان سے اس پر جواب طلب کیا تو لیجیے ان کا بھی جواب پڑھ لیجیے۔
پدرسری کی آپ نے اپنے لیے بہت معقول سی تعریف نکال لی ہے۔ اس میں کچھ ترمیم کر لیں۔ مرد گھر کا سربراہ ہے، گھر کے امور کا ذمہ دار ہے لیکن گھر میں رہنے والوں کا مالک نہیں۔
جب ہم پدرسری معاشرے کی بات کرتے ہیں تو وہ ایسا معاشرہ ہے جس میں مرد گھر کے ہر فرد اور معاشرے کے ہر فرد پر حق حاکمیت کا دعوے دار بن رہا ہوتا ہے۔
پھر بات کر لیں کہ خواتین پہلے مردوں کے مقابلے پر کام کریں تو سہی۔ تو جناب کام کرنے تو دیں۔ گھر سے باہر قدم آپ رکھنے نہیں دیتے، نکلے تو آپ کی مرضی سے نکلے، باہر نکل کر سانس آپ کی مرضی سے لے، باہر بھی کہاں جانا ہے یہ تک تو آپ طے کر رہے ہیں۔
پاکستان میں ہی ہنزہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں خواتین پلمبر ہیں الیکڑیشن ہیں اور کارپینٹر بھی کیوں کہ وہاں کے مرد انہیں کام کرنے دے رہے ہیں۔
ذرا اپنے نظر کرم اس معاشرے پر ڈالیں۔ کھیتوں میں خواتین کام کرتی ہیں، نہروں اور کنوؤں سے خواتین پانی بھر کر لاتی ہیں، ہل چلاتی ہیں، آپ سے زیادہ ہی کام کر سکتی ہیں اگر آپ کرنے دیں۔
وہ اپنے جواب میں مزید لکھتی ہیں کہ میں نے خود بطور صحافی شام چار سے رات 12 بجے کی ڈیوٹی کی ہے لیکن ساتھ اعتراض اُٹھایا کہ مرد ماحول کو قابل اعتراض نہ بنائیں تو نائٹ شفٹ میں کام کرنے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں۔
جہاں تک آپ نے بات کہ وہ خواتین حصہ لیتی ہیں جن کا تعلق امیر خاندانوں سے ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں بولنے کی آزادی ہے وہ ان کے حق میں نکلتی ہیں جو خود اپنے حق کے لیے باہر نہیں نکل سکتیں۔ جواب ختم ہوا۔
آپ نے دونوں اطراف کو پڑھ لیا، اب خود فیصلہ کریں کہ کس کی بات کتنی درست ہے اور معاشرہ سازی میں کیسے افراد کی ضرورت ہے۔
ہمیں نہ پدرسری معاشرے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان نئی نویلی مارچ پر نکلی خواتین کے بینرز پر لکھے نعروں کی کیونکہ عوام کا ان دونوں انتہائی حدوں سے کم ہی تعلق ہے۔ عوام تو درمیانی حصے grey area میں رہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آپ کو یوں تو محسوس نہیں ہوتا کہ یہ سڑکوں، چوکوں، چوراہوں پر نکلی خواتین عام خواتین کے بالکل ویسے ہی مسائل حل کرنے کے نعرے لگا رہی ہیں جیسے ایک سیاست دان لگایا کرتا ہے اور خاص طور پر اپوزیشن۔
یہاں پر جس چیز کی کمی محسوس ہو رہی تھی وہ تھی ان عورتوں کی بات، جن کے لیے مارچ والی خواتین نعرہ بلند کرتی ہیں۔ اس لیے مزید دو خواتین کی رائے بھی جانی گئی۔ ان کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور وہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر چکی ہیں۔
ان کے بقول مارچ والی عورتوں کو کیا پتہ کہ کام کیسے کیا جاتا ہے؟ انہوں نے تو منہ میں سونے کا چمچ لے کر آنکھ کھولی اور چونکہ مڈل کلاس طبقہ کچھ زیادہ ہی دین کے قریب ہوتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ دین نہ تو مردوں کو سختی کرنے کا کہتا ہے اور نہ ہی عورتوں کو عورت مارچ جیسی بے ہودگی کی اجازت دیتا ہے۔
خیر یہ بےہودگی چونکہ ان کا لفظ تھا اس لیے تحریر میں درج کر لیا ورنہ ہودہ اور بے ہودہ ہونے کا فیصلہ ہر ایک کی نظر میں مختلف ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ بلاگ لکھاری کے ذاتی خیالات ہیں اور ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔