امریکہ نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن ایران میں تین ماہ بعد ہونے والے انتخابات سے قبل تہران کے ساتھ جوہری معاہدے کی تجدید کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لیں گے۔
جون میں ہونے والے انتخابات کے بعد تہران میں زیادہ سخت گیر قیادت کے منتخب ہونے کی توقع ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایران کے لیے نامزد مندوب روب مالیے نے بدھ کو ایک انٹرویو میں کہا: ’ہم (جوہری معاہدے) پر بات چیت کی رفتار کو ایرانی انتخابات سے جوڑنا نہیں چاہتے بلکہ اس رفتار کا تعین اس بات سے کیا جائے گا کہ امریکی قومی سلامتی کے مفادات کے دفاع کے لیے ہم کہاں تک جاسکتے ہیں۔‘
’دوسرے لفظوں میں ہم ایرانی انتخابات کی وجہ سے چیزوں میں جلد بازی اور سست روی کا شکار نہیں ہوں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعے مسائل حل کے حامی ممالک چاہتے ہیں کہ امریکہ ایرانی انتخابات اور صدر روحانی کے سبکدوش ہونے سے قبل ہی تہران کے ساتھ معاہدے کی تجدید کرلے۔
تاہم کچھ ماہرین اس بات کی مخالفت کرتے ہیں، جن کا ماننا ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہی ایرانی پالیسی کا حرف آخر ہوں گے اور یہ کہ ایک نئے ایرانی صدر معاہدہ تبدیل کرسکتے ہیں، اس لیے نیا معاہدہ نئی حکومت کے ساتھ ہی طے کیا جائے۔
صدر بائیڈن 2015 کے جوہری معاہدے میں امریکہ کی شمولیت کا عندیہ دے چکے ہیں، جس سے ان کے پیشرو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکہ طرفہ طور پر امریکہ کو علیحدہ کرلیا تھا۔ ٹرمپ کی پالیسی سے ایرانی معیشت کو نقصان پہنچا اور تہران کے علاقائی کردار کو چیلنج کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات نافذ کیے تھے۔
ایران نے اب تک بات چیت کی بحالی کے لیے کہا ہے کہ صدر بائیڈن کو جوہری معاہدے کی مکمل تعمیل کے لیے ٹرمپ کے اقدامات کو ختم کرنا ہوگا۔