ایران کے ساتھ 2015 میں کیے جانے والے تاریخی جوہری معاہدے کے فریق بننے والے ممالک نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاہدے کی خلاف ورزیوں کو روکتے ہوئے اس کی شقوں پر مکمل عمل کرنے کی جانب واپس لوٹ آئے۔
جرمن عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہ مطالبہ ویانا میں اس حوالے سے کی جانے والے ورچوئل اجلاس کے دوران کیا گیا ہے۔
اس ملاقات میں اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک جرمنی، فرانس، برطانیہ، چین اور روس شامل تھے جو سال 2018 میں امریکی یک طرفہ انخلا کے بعد سے اس معاہدے کو مکمل طور پر غیر فعال ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تینوں یورپی طاقتوں نے امید ظاہر کی ہے کہ واشنگٹن میں انتظامیہ کی تبدیلی کے ساتھ امریکہ اس معاہدے میں واپس شامل ہو سکتا ہے۔
اس معاہدے کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنا ہے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار نہیں کرنا چاہتا۔
جرمن وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ ادیبار کی جانب سے بدھ کو کہا گیا کہ سیاسی مشیروں اور نائب وزار خارجہ کی اس ملاقات میں جوہری معاہدے پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے گا اور یورپی ممالک ایران سے اس پر مکمل عمل کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
ایران کا موقف ہے کہ امریکہ کی جانب سے اس معاہدے کی پہلی خلاف ورزی کرنے کے بعد وہ اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے۔
یاد رہے سال 2018 میں صدر ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران پر سخت پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔
اجلاس میں شرکت کرنے والے روسی وفد کے رکن میخائل الیانوف نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’اجلاس کے شرکا نے اس معاہدے کے لیے اپنی حمایت اور اس پر مکمل عملدرآمد کو یقنی بنانے کے لیے کی جانے والی سفارتی کوششوں کی تصدیق کی ہے۔‘
معاہدے میں ایران کو جوہری پروگرام کو روکنے کے بدلے معاشی فوائد دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن امریکی پابندیوں کے دوبارہ عائد کیے جانے کے بعد باقی ممالک ایران کو درکار حمایت فراہم کرنے میں مشکلات کا شکار تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران کی جانب سے معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی کے باوجود بین الااقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ تہران نے ایجنسی کے معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی مکمل اجازت دے رکھی ہے۔ معاہدے میں شریک باقی ممالک کا ماننا ہے کہ ایران کا یہ فیصلہ اس معاہدے کو بچانے کے کوششوں کی ایک اہم وجہ ہے۔
ایران کو کیا شکایات ہیں؟
اجلاس میں ایران کی نمائندگی نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کی۔ انہوں نے ایرانی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ کوئی فائدہ نہ ملنے کے باوجود اس معاہدے پر مکمل عمل پیرا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایران اس معاہدے میں شریک فریقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے غیر قانونی اقدامات کی مکمل قیمت ادا نہیں کر سکتا اور دوسرے فریقوں کو بھی اس معاہدے کو بچانے کی قیمت ادا کرنی ہو گی۔‘
یاد رہے گذشتہ مہینے معروف ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل کے بعد خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو چکا ہے جبکہ ایران نے اس قتل کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔
فخری زادہ کے قتل کے بعد ایرانی پارلیمنٹ نے ایک بل کے ذریعے حکومت پر جوہری پروگرام میں وسعت لانے اور عالمی معائنہ کاروں کو معائنے سے روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ اس بل سے متفق نہیں ہیں اور صدر روحانی نے اس بل پر دستخط نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
روحانی نے ملک کے قدامت پسند طبقے کی تنقید کے باوجود جنوری میں امریکی صدر کی تبدیلی کے ساتھ اس ’موقع‘ سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں جاری رکھنے کا کہا تھا۔
ایرانی صدر کہہ چکے ہیں کہ ایران اس معاہدے میں واپسی کے لیے تیار ہے بشرطیکہ معاہدے کے دوسرے فریق اپنے وعدے پورے کر سکیں۔