واشنگٹن میں سیاسی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اس ایرانی جوہری معاہدے میں امریکہ کی دوبارہ شمولیت کا عندیہ دیا ہے جس کو ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک کر دیا تھا تاہم نئی انتظامیہ کا اصرار ہے کہ امریکہ پابندیوں کو ہٹانے سے پہلے چاہے گا کہ تہران پہلے اپنے جوہری مواد کا ذخیرہ ختم کرے۔
جیسا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بدھ کو براک اوباما کی انتظامیہ کی جانب سے دستخط کیے گئے جوہری معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’ہم اس بات کے بارے میں واضح ہو چکے ہیں کہ (معاہدے کی) تعمیل سے ہی (پابندیوں کے خاتمے کی) تعمیل ممکن ہے یعنی اگر ایران 2015 کے ’جوائنٹ کمپریہینسیو پلین آف ایکشن‘ (جے سی پی او اے) پر دوبارہ مکمل عمل درآمد کرے گا تو امریکہ بھی ایسا ہی کرے گا۔‘
لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ تہران کے حکام کو بھی اس معاہدے میں واپس آنے میں کوئی جلدی نہیں ہوگی۔ اگرچہ واشنگٹن میں بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ ایران اپنی لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے پابندیوں سے نجات کے لیے بے چین ہے لیکن شاید یہ بات درست نہ ہو۔
ایران نے اسی ہفتے اسلامی انقلاب کی 42 ویں سالگرہ منائی۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم کے بدترین اثرات کے ساتھ ساتھ ایک دہائی پہلے اوباما کی انتظامیہ کی جانب سے عائد سخت پابندیوں کے باوجود ایران نے کافی نقصان اٹھایا تاہم وہ اب بھی استقامت سے کھڑا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے جمعرات کو ایک تقریر میں اعلان کیا: ’دنیا میں کسی کو بھی شبہ نہیں ہے کہ ایرانی عوام کے خلاف ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے اور وہ اس قوم کے خلاف معاشی جنگ بھی نہیں جیت پائے ہیں۔‘
ایران مشرق وسطیٰ میں کرونا وبا کی بدترین صورت حال سے بھی گزرا ہے اور اب وبا کی تیسری لہر کے ساتھ ساتھ تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی سے شدید متاثر ہوا تاہم تیل کی قیمتوں میں اب کچھ استحکام دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ ایران کو معاشی طور پر کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن اس نے کافی حد تک ان حالات کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔
ایک بار ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد پابندیوں کا ابتدائی نقصان برداشت کرنے کے بعد ایران نے ان امریکی پابندیوں سے بچنے کے پرانے طریقہ کار کو اپنایا جس میں ملائیشیا جیسے ثالث ملک کے ذریعے اپنا تیل فروخت کرنا اور وینزویلا اور شام جیسے پابندیوں کے شکار ممالک کے ساتھ تجارت کرنا شامل ہے۔
عالمی معیشت پر نظر رکھنے والے ایک جرمن تھنک ٹینک ’کیئل انسٹیٹیوٹ‘ سے وابستہ ماہر معاشیات اور سیاسی ماہر کتھرین کیمن کا کہنا ہے: ’ایران کسی طرح 2020 تک قائم رہنے میں کامیاب رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے سٹیل اور پیٹرو کیمیکلز کی برآمدات میں اضافے، ڈومیسٹک پیداوار اور کھپت میں توسیع کے ساتھ ساتھ علاقائی تجارت کو فروغ دینے جیسے معاشی اقدامات کے ذریعے خود کو مکمل تباہی سے بچا لیا ہے۔
ان کے بقول: ’ایران نے پابندیوں، تیل کی قیمتوں میں کمی اور کرونا وبا جیسے تین بحرانوں کا سامنا کیا ہے۔‘
بہت کم لوگوں کو توقع ہے کہ پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ یا اس کے بغیر بھی ملک ترقی کر پائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیسا کہ کتھرین کیمن نے خبردار کیا کہ اگر ایران اپنے منجمد اثاثوں تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا تو ادائیگی کا ایک ممکنہ بحران اس کا منتظر ہو گا۔
انہوں نے کہا: ’پابندیوں کی وجہ سے ریاستی آمدنی کے بغیر یا صرف انتہائی محدود آمدنی کے ساتھ ایران اقتصادی طور پر تنزلی کی جانب گامزن ہے۔‘
لیکن تحقیقوں سے پتہ چلتا ہے کہ کمزور معاشی نمو مشکلات میں گھیرے اور حکومت سے ناراض نچلے اور متوسط طبقے اور ایران کے قدامت پسند سیاستدانوں کے مفادات کو ہم آہنگ کر سکتی ہے جو امریکہ کے ساتھ معاہدے کو ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ معاشی جمود اور غیر ملکیوں سے نفرت پر مشتمل دائیں بازو کی سیاست کا بڑھتا ہوا رجحان مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ روس اور لاطینی امریکہ میں دیکھا جا رہا ہے۔
ایران کی معیشت پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ’بورس اینڈ بازار‘ سے وابستہ اسفند یار بتمن گلیدج کہتے ہیں: ’اس حد تک کہ جب عام عوام کی معاشی صورت حال مزید سنگین ہو جائے بہت سارے سیاسی رہنماؤں کو اس غیر یقینی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے مواقعے میسر ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ پابندیوں سے معیشت تباہ ہوتی ہے بلکہ ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جمود کی صورت حال در حقیقت ایسی زورآور سیاست کو فروغ دیتی ہے جو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ابھر رہی ہے۔‘
اس طرح کی ابھرتی ہوئی سیاسی صف بندی سے اس بات کا امکان کم کرتی ہے کہ سخت گیر حکمران کسی نئے معاہدے میں شامل ہوں۔ ان کے لیے ریاست کی وفادار اور غریب قوم پر حکمرانی کرنا ان اعتدال پسند اور خوشحال لوگوں پر حکمرانی کرنے سے بہتر ہے جن کے عزائم بلند ہوں۔
واشنگٹن میں اندرونی ذرائع نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ سمجھتی ہے کہ ایرانی حکومت خاتمے کے راستے پر گامزن نہیں ہے۔ امریکی حکام ایران کے ساتھ کسی بھی ممکنہ گفت و شنید کے لیے تجربہ کار سفارت کار رابرٹ مالے کی سربراہی میں مذاکرات کاروں کی ایک ٹیم جمع کر رہے ہیں۔
امریکی انتظامیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اگلے اقدام سے پہلے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مشاورت میں مصروف ہیں۔ امریکہ ایران کے میزائل پروگرام اور اس کے حمایت یافتہ سعودی عرب پر حملے کرنے والی حوثی ملیشیا سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں مسلح گروہوں سے نمٹنے کے لیے قابل عمل مذاکرات چاہتا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے منگل کو صحافیوں کو بتایا: ’یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سفارتی سطح پر کام کریں تاکہ کوئی لائحہ عمل اختیار کرنے سے پہلے ہمیں معلوم ہو کہ ہمارے سٹریٹجک مقاصد کیا ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہمارے شراکت داروں اور ہمارے اتحادیوں کو بھی معلوم ہو کہ ہمارے سٹریٹجک مقاصد کیا ہیں۔‘
برطانیہ، یورپی یونین، روس اور چین سمیت جے سی پی او اے کے دیگر فریقین چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک (امریکہ اور ایران) معاہدے پر عمل درآمد کریں۔
جمعرات کو روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا: ’واشنگٹن کو اسے (معاہدے پر عمل درآمد کو) ممکن بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانا چاہیے۔ لیکن ان اقدامات کے لیے پالیسی بنانا اور ان کی منصوبہ بندی کرنا ایک الگ مسئلہ ہے۔‘
بائیڈن ٹیم جانتی ہے کہ (دوسری جانب سے بھی) دباؤ جاری ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ نے دسمبر میں ایک ایسا قانون منظور کیا تھا جس میں ملک کی جوہری توانائی تنظیم کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ 21 فروری تک جوہری معاہدے کے تحت معائنوں کی اجازت سے درستبردار ہو۔
اس کے علاوہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے ماہرین کے مطابق ایران نے ایٹمی اسلحے کی تیاری کے لیے پہلے ہی ’بریک آؤٹ ٹائم‘ کم کر دیا ہے یعنی اسلحے کے لیے جوہری مواد کی تیاری کی جو مدت اسے درکار ہے وہ ایک سال سے کم ہو کر چند مہینوں تک ہوگئی ہے۔
مزید برآں جون میں ایرانی صدارتی انتخابات کا مطلب یہ ہے کہ جلد ہی ملک داخلی سیاست میں الجھ کر رہ جائے گا اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ آئندہ آنے والی حکومت موجودہ صدر حسن روحانی، جنہیں آئینی طور پر انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے، کے مقابلے میں معاہدہ کرنے میں کم دلچسپی کا مظاہرہ کرے۔
اسفند یار کا کہنا ہے: ’معیشت اتنی اچھی ہوگی کہ سفارت کاری کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار نہ کرنا کسی کے لیے سیاسی مشکل پیدا نہیں کرے گا۔‘
ایران نے ابھی تک امریکی شرائط پر مذاکرات میں واپس آنے کے لیے کسی جلد بازی کا اشارہ نہیں دیا ہے۔ اس ہفتے ایران کے وزیر انٹلیجنس محمود علوی نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں خبردار کیا تھا کہ اگر خطرہ محسوس ہوا تو ان کا ملک معاہدے کی ذمہ داریوں کو ختم کرتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا انتخاب کرسکتا ہے۔
انہوں نے پیر کو دنیا بھر کی سرخیاں بننے والے اپنے بیان میں کہا تھا: ’ہمارا ایٹمی پروگرام پُرامن ہے اور سپریم لیڈر نے اپنے فتوے میں واضح طور پر کہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری شریعت کے منافی ہے لیکن جب آپ کسی بلی کو گھیرتے ہیں تو وہ آپ پر چھپٹتی ہے اور اگر اسے آزاد چھوڑ دیں تو وہ ایسا برتاؤ نہیں کرتی۔ اگر وہ ایران کو اس سمت دھکیلتے ہیں تو پھر یہ ایران کی غلطی نہیں ہوگی۔‘
علوی کے تبصرے کو ملک کے طاقتور پاسداران انقلاب کے قریبی افراد نے ان کے ذاتی خیالات قرار دے کر مسترد کر دیا۔ لیکن دوسرے ایرانی رہنماؤں نے خبردار کیا کہ ایران امریکہ کی ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے امادہ نہیں ہے جس میں جوہری پیداوار اور ایٹمی مواد کے ذخیرے کو جے سی پی او اے کی طرف سے مقرر کردہ سطح تک کم کرنا بھی شامل ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اقتصادی پابندیوں میں اضافے کے بعد گذشتہ سال ایران نے اس شرط کی خلاف ورزی کی تھی۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے پیر کو کہا: ’اگر وہ چاہتے ہیں کہ ایران اپنے عہد کو پورا کرے تو امریکہ کو اپنی تمام پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔ ہم اس کا جائزہ لیں گے اور اگر ہم دیکھیں گے کہ انہوں نے اس سلسلے میں ایمانداری سے کام لیا ہے تو ہم بھی اپنے وعدے کو پورا کریں گے۔‘
انہوں نے موقعے سے فائدہ اٹھانے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس موقعے کو مذاکرات کی ’دعوت قبول کرنے اور ایرانی عوام کے خلاف بے نتیجہ دشمنی کے خاتمے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔‘
© The Independent