بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے شہر سورت کی ایک عدالت نے 127 مسلمانوں کو 19 سال کے طویل اور صبرآزما انتظار کے بعد تمام الزامات سے ’باعزت‘ بری کر دیا ہے۔
’باعزت‘ بری کیے جانے والے مسلمانوں کو گجرات کی پولیس نے 27 دسمبر 2001 کو کالعدم تنظیم سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا یا سیمی سے وابستہ ہونے اور اس کی سرگرمیوں کو فروغ و توسیع دینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
سورت شہر کی ایک عدالت نے اب فیصلہ سنایا ہے کہ جن ’مسلمانوں‘ کو 27 دسمبر 2001 کو گرفتار کیا گیا تھا، ان کی ’سیمی‘ کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں تھی۔
درحقیقت آل انڈیا مینارٹی ایجوکیشن بورڈ نے 2001 کے آخری دنوں میں سورت شہر میں ’مسلم ایجوکیشن‘ کے موضوع پر تین روزہ سیمینار کا اہتمام کیا تھا۔
اس سیمینار میں 400 مسلمان، جن میں سے اکثریت سکالرز، ڈاکٹرز، انجینیئرز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تھی، شرکت کرنے والے تھے۔
سیمینار شروع ہونے سے پہلے ہی گجرات پولیس نے سورت شہر کے راج شری ہال پر رات کے اندھیرے میں چھاپہ مار کر وہاں عارضی طور پر قیام پذیر 127 مسلمانوں کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس نے ان کی گرفتاری کو ’سیمی‘ کے خلاف ایک بڑی کارروائی قرار دیتے ہوئے گرفتار شدگان کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون یا غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ جب ان مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا اس وقت موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
جن مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا تھا، ان کا تعلق بھارت کی 10 مختلف ریاستوں جیسے مہاراشٹر، گجرات، مدھیہ پردیش، کرناٹک، اترپردیش، راجستھان، مغربی بنگال، تمل ناڈو، بہار اور چھتیس گڑھ سے تھا۔ ان میں سے پانچ مسلمان طویل عدالتی ٹرائل کے دوران ہی انتقال کر چکے ہیں۔
بھارتی حکومت نے امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں کے محض دو ہفتے بعد ’سیمی‘ کو کالعدم تنظیم قرار دیا تھا۔ اس تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ اس وقت کے وزیر داخلہ لال کرشن ایڈوانی، جن کا شمار ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سخت گیر ہندوتوا لیڈران میں ہوتا ہے، نے لیا تھا۔
بی جے پی کی قیادت والی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) حکومت نے ’سیمی‘ کو یہ کہتے ہوئے کالعدم قرار دیا تھا کہ اس کے پاکستانی مسلح تنظیموں سے روابط ہیں اور یہ تنظیم مختلف جگہوں پر ہونے والے دھماکوں میں ملوث ہے۔
بھارت میں اب تک سینکڑوں مسلمانوں کو ’سیمی‘ سے وابستہ ہونے کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے نیز ایک درجن سے زائد کو مبینہ ’فرضی جھڑپوں‘ میں مارا جا چکا ہے۔
’سیمی‘ کا کہنا ہے کہ اس کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کی تشکیل کا مقصد اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے کام کرنا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بری کیے جانے والوں میں مسلم سکالر ضیا الدین صدیقی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ عدالتی فیصلے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی بھارت کے قانونی نظام سے پوچھتے ہیں کہ کیوں کر ان کے 20 سال ضائع کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ اس سیمینار کا سیمی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ مقدمے میں کہا گیا تھا کہ 28 دسمبر 2001 سے غیر قانونی اسمبلی منعقد ہونے والی تھی۔ جو اسمبلی منعقد ہی نہیں ہوئی وہ غیر قانونی کیسے ہو سکتی ہے؟ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے۔‘
’عدالت نے ہمیں باعزت بری کیا ہے۔ ہم اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ پورے قانونی نظام کے لیے سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیونکر ہمارے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا اور ہمارے 20 سال ضائع کیے گئے۔ جن لوگوں نے شکایت درج کی تھی، ان ہی لوگوں کو تحقیقاتی افسران تعینات کیا گیا تھا۔‘
الزامات کا نقصان
ضیا الدین صدیقی نے بتایا کہ جھوٹے الزامات کی وجہ سے ہمارے بیوی بچوں کو پریشانی ہوئی، ہمارا کاروبار متاثر ہوا اور ہماری نوکریاں چلی گئیں۔
’ہمیں ان گنت مسائل اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سال تک جیل میں رہنا پڑا۔ ہر ماہ سورت کی عدالت یا سورت کی پولیس کے سامنے حاضر ہونا پڑتا تھا۔ ہمیں سخت مالی تنگی سے دوچار ہونا پڑا۔ اس نقصان کی برپائی کون کرے گا؟ ہم یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اگر نظام بے گناہوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے اسی طرح بیس بیس سال تک انتظار کرائے گا تو نقصان کی برپائی کیسے ہوگی، اس پر قانون سازی کی ضرورت ہے؟ ہماری اپیل ہے کہ اب آئندہ بے قصوروں کو اس طرح ستایا نہ جائے۔‘
گجرات سے تعلق رکھنے والے آصف شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کی وجہ سے انہیں یونیورسٹی ٹاپر ہونے کے باوجود کسی بھی میڈیا ہاؤس نے نوکری نہیں دی۔
’ہم لوگوں کو ایک سال تک قید رکھا گیا۔ جیل سے رہائی ملی تو نوکری نہ مل سکی۔ میں نے گرفتاری سے چند ماہ قبل ہی گجرات یونیورسٹی سے صحافت کے کورس میں ٹاپ کیا تھا۔ کسی بھی میڈیا ہاؤس نے مجھے نوکری نہیں دی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان سے کہا گیا کہ ان پر شدت پسند تنظیم سے جڑے ہونے کا ٹیگ لگ چکا ہے۔
’میرے ہم جماعتوں نے جرنلزم کے شعبے میں اچھا خاصا نام کمایا ہے۔ میں نے ایک پرائیویٹ نوکری شروع کی تو وہاں بھی ایک سال بعد مستعفی ہونے کے لیے مجبور کیا گیا۔ شادی کے لیے رشتہ ملنے میں پریشانی ہوئی۔ لڑکی والے رشتہ دینے سے انکار کر رہے تھے۔ یہ وجہ رہی کہ 38 سال کی عمر میں میری شادی ہوئی۔ لوگوں کا میرے تئیں رویہ بہت عجیب ہوتا تھا۔ وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتے تھے۔ میرے سلام کا جواب نہیں دیتے تھے۔ میرا نمبر اپنے موبائل فونوں میں محفوظ نہیں کرتے تھے۔ جرنلزم کی پڑھائی تو کی ہے لیکن اب میں مرچ مصالحے بیچتا ہوں۔‘
سورت کی عدالت میں 127 مسلمانوں کا کیس لڑنے والے ایڈووکیٹ خالد شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بھارت میں انصاف کا نظام سست ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کیسوں کا فیصلہ سامنے آنے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔
’سرکاروں کی بھی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ان کو جن کیسز میں جلدی کرنی ہوتی ہے ان میں کی جاتی ہے۔ سسٹم کرپٹ ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سپریم کورٹ میں ارنب گوسوامی اور دوسرے کچھ لوگوں کے کیسز کو کیسے ترجیحی بنیادوں پر تکمیل تک پہنچایا گیا۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ سرکار کا مسلمانوں اور دلتوں کے تئیں رویہ کیسا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میں پہلے دن سے اس کیس کی پیروی کر رہا ہوں۔ مقدمے میں جن لوگوں کو ملزم بنایا گیا تھا ان میں اکثر ڈاکٹر، انجینیئر اور ٹیچر تھے۔ ان سبھی لوگوں کی زندگی خراب ہوئی ہے۔ کئی لوگوں کی سرکاری نوکریاں تھیں وہ چلی گئیں۔ انہیں شدید نفسیاتی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر الزامات لگے تھے کہ وہ دہشت گرد تنظیم سے وابستہ ہیں۔‘