عراق کئی برسوں بعد قتل وغارت گری کے اندھیروں، کڑی پابندیوں اور جنگ کے مہیب سایوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوا ہے۔ مذہبی تعصب کی لعنت اور غیرملکی تسلط نے عراقی اداروں بالخصوص اس کی قومی فوج کو تتر بتر کیا۔ الحمد اللہ! عراق ایک مرتبہ پھر غم کے اس دور سے باہر نکلنا شروع ہو گیا ہے۔
رومن کیتھولک مسیحیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس کے حالیہ تاریخی دورہ عراق کے موقع پر دنیا نے جنگ سے تباہ حال ملک میں زندگی کی نئی جھلک دیکھی۔
بغداد آج بھی عزم وثبات کے ساتھ بین الاقوامی برادری کا سرگرم رکن بننے کے لیے کوشاں ہے۔ ماضی کے دھندلکے، کم از کم عارضی طور پر ہی سہی، روشنی میں تبدیل ہونا شروع ہوئے ہیں۔ پوپ فرانسس کا عراق کا یہ پہلا اور گذشتہ 15 ماہ کے دوران اٹلی سے باہر ان کا 33 واں دورہ تھا۔
ویٹی کن سے آنے والے معزز مہمان کے استقبال کے لیے روشن کیے جانے والے قمقموں سے نئے سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔ پوپ فرانسس کی جرات خوش آئند پیش رفت تھی، جسے عراقی عوام نے محبت وآشتی کے جذبے کے ساتھ لوٹانے میں بخل سے کام نہیں لیا۔
پوپ کا دورہ عراق اس حوالے سے منفرد سمجھا جاتا ہے کہ ماضی میں اس جنگ زدہ ملک کا دورہ کرنے والے مغربی ملکوں کے مہمان غیراعلانیہ طور پر رات کے اندھیروں میں یہاں آیا کرتے تھے۔ ان غیرملکی مہمانوں کی عراق میں سرگرمیوں کو سربستہ راز سمجھ سات پردوں میں رکھا جاتا اور اکثر ’مہمانوں‘ کی واپسی کے بعد بھی ان کے دورے کی تفصیلات آشکار نہیں کی جاتی تھیں۔
پاپائے روم کے چار روزہ دورے کا بہت پہلے سے اعلان کیا گیا تھا۔ اس کا تفصیلی پروگرام مہمانوں اور میزبانوں سبھی کو میڈیا کے توسط سے دیکھنے اور سننے کو ملا۔ دورے کے طے شدہ تمام پروگرام اور سرگرمیاں بروقت منعقد ہوئیں۔
پوپ فرانسس کے دورہ عراق کا مقصد وہاں معدوم ہوتی ہوئی عیسائی آبادی کی ڈھارس بندھانا تھا۔ ماضی میں یہ عیسائی عراق کی متحرک برادری کا حصہ شمار ہوتے تھے۔
کئی دہائیاں قبل ایک عراقی مسلمان رہنما نے اپنے ہاں مقیم عیسائی آبادی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’عرب قوم ایک خوبصورت باغ کی مانند ہے اور مسیحی عرب اس باغ کے خوبصورت گلاب ہیں۔‘ بدقسمتی سے عراق کے ان ’گلابوں‘ کی رنگت مانگ پڑنے لگی تھی۔
عراق کے مسیحی دنیا کی قدیم ترین مسیحی برادری میں سے ایک ہیں اور گذشتہ دو دہائیوں میں ان کی تعداد 14 لاکھ سے گھٹ کر تقریباً ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی تھی، جو ملک کی آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ بنتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنہ 2003 میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے لیے کیے گئے امریکی حملے کے بعد سے بہت سے لوگ اس تشدد سے بچنے کے لیے بیرون ملک نقل مکانی کر گئے تھے۔
عراق میں سنہ 2019 میں مذہبی آزادی سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مسیحیوں کے ساتھ ساتھ سنی مسلمانوں نے بھی شیعہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں چوکیوں پر ہراساں کیے جانے کی اور تعلیم میں کچھ امتیازی سلوک کی شکایت کی ہیں۔
دورہ پوپ کے بعد مسیحیوں کی عراق میں واپسی [ہجرت معکوس] کی امید پیدا ہوئی ہے۔ نیز اس سے ملک میں ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ان عیسائیوں کو بھی حوصلہ ملے گا کہ جو بہادری سے وہاں اس امید پر ڈٹے رہے کہ انہیں خود اور دوسری تباہ حال عراقی برادریوں کو بحال کر کے زندگی کے عمومی دھارے میں شامل کرنا ہے۔
جو خطہ آج عراق ہے، یہاں کے لوگوں نے پہلی صدی عیسوی میں مسیحی مذہب اختیار کیا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق مسیحی رہنماؤں کا اندازہ ہے کہ عراق میں ڈھائی لاکھ سے بھی کم مسیحی باقی رہ گئے ہیں، جن کی سب سے بڑی آبادی کم از کم دو لاکھ ملک کے شمال میں واقع نینوا اور کردستان خطے میں آباد ہے۔
ان میں سے تقریبا 67 فیصد کلدانی کیتھولک ہیں، جن کے ایسٹرن رائٹ چرچ نے اپنی الگ روایات کو برقرار رکھا ہوا ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ پاپائے روم کے اختیار کو تسلیم کرتے ہیں۔ مزید 20 فیصد مشرق کے اسیریئن چرچ کے پیروکار ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عراق کا قدیم ترین چرچ ہے۔
دیگر مصروفیات کے علاوہ پاپائے روم نے دورے کے دوران اس تاریخی چرچ میں دعا بھی کروائی جہاں شدت پسند تنظیم داعش نے 57 مسیحیوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اگرچہ پوپ کے دورہ عراق کا مرکزی نقطہ عراقی عیسائی تھے، تاہم اس نے تمام عراقیوں کو حوصلہ اور امید دلائی ہے۔
بغداد ہوائی اڈے پر اترنے سے لے کر واپسی تک پوپ فرانسس نے مسلسل تشدد کے خلاف بات کی اور امن کا پرچار کیا۔ انہوں نے نجف میں شیعہ برادری کے سرکردہ رہنما علی السیستانی سے بھی ملاقات کی۔
پوپ نے کئی برسوں سے جاری تنازع میں تباہ ہونے والے شمالی عراق کے بعض شہروں کا بھی دورہ کیا۔ قیام امن کی اپیل کرتے وقت پوپ فرانسس یزیدی برادری کے وہ غم نہیں بھولے جو داعش کے ہاتھوں قتل عام کی شکل میں اس برادری نے برداشت کیے۔
عراق کا شمار عرب دنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ تیل کی دولت کے ساتھ یہ خطہ پانی کی وافر نعمت سے بھی سیراب ہے۔ عراق کی کثیر آبادی تعلیم یافتہ ہے جو ماضی کے مختلف ادوار میں مشرق وسطیٰ میں متنوع سٹرٹیجک کردار ادا کرتے چلے آئے ہیں۔
سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی جائے پیدائش’اُر‘ شہر بھی پاپائے روم کے دورہ عراق کی اہم گذرگاہ رہا۔ حضرت ابراھیم عیسائی، یہودی اور مسلمانوں تینوں مذاہب کے لیے انتہائی عقیدت کا مقام رکھتے ہیں۔ دورہ ’اُر‘ تینوں مذاہب کے پیروکاروں کے لیے اتحاد ویگانگت کا پیغام تھا۔
معزز مہمان کے عراق میں قیام کے دوران اس ملک کی کارکردگی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ہر چیز طے شدہ وقت اور مقام پر انجام پائی۔ پوپ فرانسس کی عراق آمد کے وقت دکھائی جانے والی جرات ان کے کامیاب دورہ عراق کی صورت میں منتج ہوئی۔
اس وقت یہ بات درپیش چیلنجوں میں سرفہرست ہے کہ کامیاب دورہ عراق کے ثمرات کیسے سمیٹے جائیں؟ خطے اور دنیا کو جانا لینا چاہیے کہ عراق اپنی عظمت رفتہ کی جانب لوٹ رہا ہے۔
بغداد اب بھی کمزور دکھائی دیتا ہے، تاہم عوام کا ویٹی کن سے اپنے ہاں تشریف لانے والے معزز مہمان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ملک سے تشدد کا خاتمہ ضرور ہو گا۔
دورے سے تباہ حال ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے جس میں عراقی عوام دنیا سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان کے ملک کو محفوظ سمجھتے ہوئے ان سے تجارت کریں۔ بغداد ترقی کا یہ سنگ میل عبور کرنے پر یقینا مبارک باد کا مستحق ہے۔
عراقیوں کے دلوں میں امید کی جوت جگانے پر پوپ فرانسس کو خراج تحسین پیش نہ کرنا بھی صریح زیادتی ہو گی۔ ان کی کاوش سے ہی بھولے بسرے عراق کو ایک مرتبہ قوموں کی زندگی میں اپنا نام روشن کرنے کا موقع ملا ہے۔
عالمی اور مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ پوپ فرانسس کی پیروی میں عراق کے ایسے ہی دورے کریں تاکہ مصالحت اور امن کے لیے ان کی عراق میں کی جانے والی اپیلوں پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہو سکے۔