کئی سال پہلے کی بات ہے، پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شامل ضلع غذر کے ایک نوجوان شدید سردیوں کی ایک رات اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک مسئلے پر جھگڑ بیٹھے۔
بات کچھ اتنی بڑی نہیں تھی لیکن احمد کریم نے، جو اس وقت میٹرک کے طالب علم تھے، جذباتی ہو کر خودکشی کی کوشش کر ڈالی۔
برف پوش پہاڑوں سے ڈھکے ضلع غذر کے باسی احمد کریم اکیلے نوجوان نہیں نہیں جنہوں نے اس انتہائی قدم اٹھانے کی کوشش کی۔ گلگت بلتستان کے اس ضلعے میں سنہ 2018 سے 2020 تک 53 افراد نے خودکشی کی جبکہ پورے گلگت بلتستان میں یہ تعداد مجموعی طور 70 رہی۔
حیرت انگیز طور پر ماہرین کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں خودکشیوں کی کوئی واضح وجہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکی، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں وہاں کوئی باقاعدہ تحقیق ابھی تک نہیں کی گئی۔
احمد کریم (فرضی نام) اب پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’میں نے ذہنی دباؤ اور پریشانی کے عالم میں خودکشی کی کوشش کی۔ لیکن اللہ نے میری زندگی بچائی، میں اب نئی زندگی گزار رہا ہوں جوکہ مجھے موت کو قریب سے دیکھنے کے بعد ملی لیکن میں اب بھی زندگی میں خوش تو نہیں مگر مجھے خوش رہنے کا دکھاوا کرنا پڑتا ہے۔‘
محکمہ پولیس سے حاصل کردہ رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں ضلع غذر میں 20 افراد نے خودکشی کی۔ اسی طرح یہ تعداد 2019 میں 23 رہی، جب کہ اسی سال مجموعی طور پر گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر 31 افراد نے خودکشی کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ سال ضلع غذر میں 10، ضلع گانچھے میں دو، جبکہ ضلع گلگت میں ایک شخص کے خودکشی کرنے کا واقعہ رپورٹ ہوا۔ یہ تعداد سال 2019 کی نسبت کم تھی۔
ڈاکٹر رشیدہ ماہر نفسیات ہیں اور گلگت میں ہولسٹک ری ہیبلی ٹیشن سروسز سینٹر میں ذہنی دباؤ کا شکار لوگوں کا علاج کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’خودکشی کے خیالات آنا ایک نفسیاتی بیماری ہے جب انسان مختلف پریشانیوں میں گھر جاتا ہے تو اکثر اسے اس کی زندگی کی آخری امید ختم ہوتی نظر آتی ہے عام طور پر تب ہی کوئی انسان خودکشی جیسا قدم اٹھاتا ہے۔‘
ڈاکٹر رشیدہ نے بتایا کہ ’گلگت بلتستان میں تاحال خودکشی کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر کوئی ریسرچ نہیں کی گئی لیکن عام خیال کے مطابق خودکشیوں کی وجوہات میں غربت، بے روزگاری، گھریلو تشدد، والدین کا سخت رویہ، امتحان میں ناکامی، پسند کی شادی نہ ہونا، اور ذہنی بیماریاں شامل ہیں۔
ڈاکٹر رشیدہ کہتی ہیں کہ اگر نفسیاتی طور پر بیمار شخص کا مناسب وقت پر علاج کرا لیا جائے تو خودکشی کے واقعات کم ہو سکتے ہیں۔
ماہر عالم دین امیر جان حقانی کہتے ہیں کہ ’اسلام کسی بھی شکل میں خودکشی کی اجازت نہیں دیتا، اسلامی تعلیمات میں انسانی جان کا تحفظ مقاصد شریعت میں سب سے اہم ہے۔ کسی بھی انسان کو یہ اجازت حاصل نہیں کہ وہ اپنی جان خود لے۔‘
ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے رابطہ کار برائے گلگت بلتستان اسرار الدین نے بتایا کہ ’جب کسی نو عمر یا بچے کی خواہشات پوری نہیں ہو پاتیں تو غصے پر قابو نہ پانے کے باعث خودکشی جیسا قدم اٹھاتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو گھریلو معاملات سے آگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول قائم کریں تاکہ خودکشی کے واقعات کم ہوں سکیں۔‘
اسرار الدین گلگت بلتستان میں ہونے والی خودکشیوں کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیق پر زور دیتے ہیں اور اس کے ساتھ سکولوں اور کالجوں میں ماہر نفسیات کی موجودگی کو ضروری سمجھتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے وزیر صحت حاجی گلبر خان نے بتایا کہ ’خودکشی کسی بھی شخص کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے پھر بھی حکومت کو اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔‘