پاکستان بھر کے بچوں کے سر پر پولیو وائرس کا خطرہ منڈلا رہا ہے کیونکہ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019 کے پہلے چار مہینوں میں ملک کے مختلف علاقوں سے لیے گئے ماحولیاتی نمونوں میں سے 49 فیصد میں پولیو کا وائرس پایا گیا، جو گذشتہ برس کے مقابلے میں 36 فیصد زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے ملک بھر سے 210 ماحولیاتی نمونے لیے جن میں سے 102 میں وائلڈ پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔
ملک بھر سے حالیہ رپورٹ ہونے والے دس پولیو کیسز اور ماحولیاتی نمونوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیو وائرس کی منتقلی کا عمل کراچی، کوئٹہ، پشاور اور دیگر علاقوں میں شناخت کردہ پانی کے ذخائر سے جاری ہے۔
ماحولیاتی نمونے ان علاقوں کے گندے نالوں سے لیے گئے کیونکہ پولیو وائرس گندے پانی اوراس میں موجود فضلے میں پروان چڑھتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے پہلے ہی قومی ایمرجنسی پلان19 -2018 کا آغاز کیا ہوا ہے جس کے تحت کو شش کی جا رہی ہے کہ ملک کے ہر بچے تک پولیو ویکسین پہنچے۔
عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک ملک بھر سے پولیو کے 10کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے تین کا تعلق لاہور سے ہے۔
قومی ادارہ صحت نے 2 اور 3 مئی کو داتا گنج بخش ٹاؤن کی حفصہ اور علامہ اقبال ٹاؤن کے دس سالہ بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعظم انسداد پولیو پروگرام کے ترجمان بابر بن عطا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: حفصہ کی والدہ جعلی پراپگینڈا پر یقین رکھتی ہیں کہ پولیو ویکسین کسی سازش کا حصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے ہمیشہ انکار کیا، جبکہ دس سالہ بچہ برین ٹیومر کا شکار تھا جس کی وجہ سے اس کی قوت مدافعت کمزور تھی اور وہ وائرس کا شکار ہوا۔
انہوں نے عوام سے التجا کی کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار نہ کریں کیونکہ اس ویکسین نے دنیا بھر بشمول مسلم ممالک میں پولیو کا خاتمہ کیا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ ویکسین پاکستان میں کام نہ کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس بچے کو پولیو ویکسین نہیں پلائی جائے گی اسی بچے پر پولیو کا وائرس حملہ کرے گا۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر عابدی رحمان محمود کے مطابق ملک میں پولیو پھیلنے کی چند وجوہات میں سے ایک 2018 میں ہونے والی حکومتی تبدیلی بھی ہے، جس میں صحت سمیت مختلف اداروں میں افسران کی تبدیلیاں ہوئیں اور نئے افسران کو سسٹم سمجھنے میں وقت لگا۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیو ویکسین کے خلاف منفی پراپگینڈا نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور پھر سردیوں میں سرد علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی بھی وائرس پھیلنے کی ایک وجہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ رواں برس جن بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ان میں سے کراچی، باجوڑ، ہنگو، جنوبی وزیرستان اور کے پی کے سے ایک، ایک کیس جبکہ بنوں سے دو اور لاہور کے تین بچے اس وائرس کا شکار ہوئے۔
2014 میں 307 بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی جن میں سے 5 کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا۔ پنجاب2016 اور 2018 میں پولیو فری رہا۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر آف ایکسپینڈڈ پروگرام آن امیونائزیشن پنجاب ڈاکٹر شکیل احمد گوندل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کے جن علاقوں کے بچوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے وہاں 13 مئی کو ایمرجنسی مہم چلائی جائے گی جبکہ جون میں چھ سے سات اضلاع میں بھی ایمرجنسی مہم شروع کی جائے گی۔
ڈاکٹر شکیل کا کہنا ہے: ایسا نہیں کہ انسداد پولیو مہم میں سب بچے قطرے پیتے ہیں، وہ بچے جن کے والدین انکار کر دیتے ہیں یا پھر خانہ بدوش بچے بعض اوقات قطرے نہیں پی پاتے۔
2013 میں محکمہ صحت سے ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر مبشر ملک پنجاب کے مختلف شہروں اور اضلاع میں پولیو ٹیموں کی نگرانی کے لیے ساتھ جاتے تھے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیو ویکسین کے اثر نہ کرنے کی کچھ وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ اس ویکسین کی کولڈ چین بریک ہونا ہے۔
ڈاکٹر مبشر کہتے ہیں کہ یہ ویکسین منفی 20 ڈگری درجہ حرارت پر رکھی جاتی ہے۔ جب ٹیمیں اسے برف والے کولر میں لے کر نکلتی ہیں تو گرمی اور دھوپ سے اس کا درجہ حرارت متاثر ہو تا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے زیادہ تر دھوپ میں کھڑے کھڑے بچوں کو قطرے پلا دیے جاتے ہیں، گرمی کی وجہ سے یہ ویکسین اپنا اثر کھو سکتی ہے، البتہ اگرپولیو ویکسین خراب بھی ہو تو یہ کسی بچے کی جان نہیں لے سکتی۔
انہوں نے اپنا مشاہدہ بتاتے ہوئے کہا کہ اکثر دور دراز علاقوں میں جہاں والدین پولیو ویکسین پلانے سے منع کرتے ہیں وہاں مذہبی رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر انہیں مہم کا حصہ بنایا جاتا تھا۔
ڈاکٹر مبشر ملک کے مطابق محکمہ صحت پنجاب اتنی سنجیدگی سے کام نہیں کر رہا جس طرح انہیں کرنا چاہیے۔
جامعہ نعمیہ کے مہتمم راغب نعیمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے فتوی جاری کیا تھا کہ بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلانا جائز ہے۔