سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں گذشتہ روز عدالت نے کتے کاٹنے کے واقعات کی روک تھام سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران سندھ اسمبلی کے دو ارکان کو معطل کر دیا گیا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے کراچی کے سینیئر وکیل اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج شہاب سرکی نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ منفرد ضرور ہے مگر غلط نہیں ہے۔
شہاب سرکی کے مطابق ’عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عوامی معاملات پر ایسے سخت فیصلے کر سکتی ہے۔‘
واضح رہے کہ جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے کتوں کے کاٹنے کے واقعات کی روک تھام میں ناکامی پر سندھ اسمبلی کے دو ارکان کو معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالتی ریمارکس کے مطابق لاڑکانہ ضلع کے رتو ڈیرو سے آصف علی زرداری کی بہن اور رکن سندھ اسمبلی فریال تالپور اور جامشورو سے ملک سکندر کو معطل کر کے انہیں اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روک دیا تھا۔
دوسری جانب سندھ حکومت نے سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کی جانب سے ایم پی ایز کی معطلی کے خلاف چیف جسٹس آف سندھ ہائی کورٹ کو درخواست ارسال کرتے ہوئے، سکھر عدالت کے جج جسٹس آفتاب احمد گورڈ پر عدم اعتماد کا اظہار کرکے کیس سکھر بینچ سے کراچی منتقل کرنے کی استدعا کی ہے۔
سندھ حکومت کا درخواست میں موقف ہے کہ ’جسٹس آفتاب احمد گورڈ سندھ حکومت کیسز میں اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں، اس لیے سندھ حکومت کا کوئی بھی کیس جسٹس آفتاب احمد گورڈ کی عدالت میں نہ لگایا جائے۔‘
حالیہ دنوں جامشورو کی یونیورسٹی کالونی میں ایک لڑکی کو آوارہ کتوں نے کاٹ لیا تھا، جن کی بعد میں ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔
عدالت کے اس فیصلے پر ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ عدالت کسی رکن اسمبلی کو اس طرح معطل کر سکتی ہے یا نہیں؟ کیوں کہ کتے کاٹنے والے کیسز کی روک تھام مقامی میونسپلٹی کرتی ہے اور ارکان سندھ اسمبلی کا کام قانون سازی ہے۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے شہاب سرکی نے کہا کہ ’ارکان اسمبلی 15، 15 سالوں سے مسلسل منتخب ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے حلقے میں عوامی خدمت کے پابند ہیں، جس کے لیے انہیں بھاری فنڈ بھی ملتے ہیں۔ اب عوامی خدمت واضح نہیں ہے۔ آیا وہ پارک تعمیر کرائیں گے یا راستے، مگر حلقے کے لوگوں کی جان کی حفاظت کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے، اگر نہیں کرسکتے تو معطل ہوسکتے ہیں۔‘
دوسری جانب ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی عدالت کو یہ اختیار نہیں کہ کسی فرد کو سنے بغیر فیصلہ سنا دے، یہ آئین کے آرٹیکل 10 اے، جو عدالت میں فری ٹرائل کا حق دیتا ہے، کی خلاف ورزی ہے اور کتوں کی آبادی کنٹرول کرنا رکن اسمبلی کی اختیار میں نہیں آتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مرتضیٰ وہاب کے بیان کے ردعمل میں شہاب سرکی نے کہا کہ ’یہ فیصلہ اچانک نہیں سنایا گیا کہ ہم بول سکیں کہ ارکان کو فری ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔ عدالت نے کئی ماہ پہلے وارنگ دی تھی کہ اگر کتے کے کاٹنے پر کنٹرول نہ ہوا تو ارکان اسمبلی معطل ہوں گے۔ اس کے بعد نوٹس دے کر انہیں بلایا گیا تھا۔ بعد میں دوبارہ کیس ہونے پر نوٹس دیا، مگر وہ نہیں آئے تو فیصلہ سنایا گیا۔‘
’عدالت کا ارکان اسمبلی کو معطل کرنے کا فیصلہ تھوڑا منفرد ضورور ہے مگر یہ فیصلہ غلط بالکل بھی نہیں ہے۔‘
دوسری جانب معطل ہونے والے جامشورو کے ایم پی اے ملک ایس سکندر سے معتدد بار کوشش کرنے کے باجود بات نہیں ہوسکی۔
صوبہ سندھ میں گذشتہ چند سالوں کے دوران آوارہ کتوں کے کاٹنے کے متعدد کیس سامنے آئے ہیں۔ سندھ حکومت کے محکمہ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صوبے میں کتے کے کاٹنے کے ہر مہینے 16 سے 17 ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں اکثریت کو اینٹی ریبیز ویکسین نہیں مل پاتی۔
رپورٹ کے مطابق 2019 میں صوبے میں کتے کاٹنے کے دو لاکھ اور 2020 میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔