یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
بارہ سال کا رحیم داد پتنگ کی ڈور ہاتھ میں پکڑے پیچ لڑاتا اسی کوشش میں تھا کہ اس کی پتنگ پڑوسی ملک (ایران) کی سرحد کی جانب پرواز کرے۔ وہ کوئی ماہر پتنگ باز نہیں ہے۔
رحیم داد بلوچستان کے ضلع چاغی میں تفتان ٹاؤن کا رہائشی ہے۔ یہ علاقہ ایران کے ساتھ پاکستانی سرحدی علاقہ کہلاتا ہے۔ رحیم داد کی خیالوں کی دنیا اس وقت زاہدان تھی جو کہ تفتان سے تقریباً 98.7 کلومیٹر مغرب میں ایک ایرانی شہر ہے۔
رحیم داد تقریباً ڈیڑھ سال پہلے مقامی راہداری کے ذریعے اپنی والدہ کے ساتھ اپنے رشتہ داروں سے ملنے زاہدان گیا تھا۔ ان دنوں کرونا (کورونا) نام کی اس مہلک وبا کا نام و نشان موجود نہیں تھا۔ تفتان اور زاہدان کے درمیان ایرانی علاقہ میرجاو بھی آتا ہے لیکن رحیم داد کے تخلیات میں اس وقت تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ دور زاہدان تھا، جہاں پانی نالیوں کے ذریعے گھروں میں مہیا کیا جاتا ہے۔
گھر کے دالان میں موجود حوض میں بھی پانی دستیاب ہوتا جو کہ رحیم داد کے شہر میں نایاب ہے اور تو اور وہاں مکانوں کے چولہوں میں دہکتی آگ بھی دستیاب تھی جو کہ رحیم داد کے گھر والوں کو ایران سے خریدنی پڑتی تھی۔ یہ عموماً سلینڈر جیسی مصیبت کے ساتھ ان کے گھروں تک پہنچتی ہے اور اگر خریدنے کی استطاعت نہ ہو تو لکڑیاں خرید کر جلانا جیسا مشکل مرحلہ۔ زاہدان کی پکی گلیاں اور ان گلیوں میں موجود پبلک پارک، شفا خانے سے لے کر صاف ستھرے مدرسے (سکول) رحیم داد کے ذہن میں اس وقت اس پتنگ سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔
ان تمام سوچوں کے درمیان رحیم داد کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہ آیا کہ جس زمین پر کھڑا وہ زاہدان کا تصور ذہن میں کیے ہوئے ہے، وہ زمین خود سونا اگلتی ہے۔ ریکوڈک یا پھر سینڈک، یہ زمین اور نہ جانے کیسے کیسے بیش بہا خزانے اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ افسوس یہ وسائل یہاں کے رہنے والے رحیم داد اور اس جیسے دیگر مقامی افراد کی قسمت بدلنے میں ناکام رہے۔ یہاں کی معدنیات اور معاہدے دونوں ہی یہاں کے رہنے والوں کے لیے ایک راز ہیں۔
1990کی دہائی سے ان منصوبوں کا آغاز ہوا۔ ریکوڈک کا منصوبہ حکومت پاکستان کے لیے درد سر اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ثابت ہوا لیکن سینڈک کی جاری کردہ لیز کو مزید ایکسٹینشن حاصل ہوچکی ہے۔ ایوان زیریں اور بالا میں خود ان کے مقامی نمائندے موجود ہیں، البتہ کچھ الیکشن کے ذریعے اور کچھ سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کی طرح بغیر الیکشن کے چاغی کے شہر نوکنڈی سے منتخب بھی ہوئے ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کا چھ فیصد صوبہ بلوچستان اس وقت انسانی ترقی کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ صوبے میں 70 فیصد سے زائد افراد غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ معدنیات جیسے یورینیم، تانبا، کوئلہ، سونا، پلاٹینم، قدرتی گیس اور اس کے ساحل ملک کے ذخائر کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں۔
پچھلے چند سالوں میں پاکستان بالخصوص بلوچستان، چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کی وجہ سے اہمیت کا حامل رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم معیشت کی ترقی کی بات کرتے ہیں تو نئے منصوبوں کا قیام ضروری عمل ہے کیونکہ مدفن خزانے قومی اور علاقائی استعمال ہوئے آئے بغیر بےمعنی ہیں۔
لیکن یہ فلسفہ بدقسمتی سے بلوچستان کے معاملے میں کامیاب ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی قدرتی گیس ہو یا پھر حب میں قائم کوئلے سے حاصل کی جانے والی بجلی، بلوچستان میں عمومی طور پر غربت کی سطح کو کم کرنے میں بھی ناکام رہی۔
کہتے ہیں کہ اگر سیاست دان کا تعلق متوسط گھرانے سے ہو اور وہ ایک سیاسی جدوجہد کر کے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہو تو اس کی کامیابی کی جھلک اس کے اپنے علاقوں تک کم از کم ضرور نظر آتی ہے۔ اگر بلوچستان کو اس نظریئے کے تحت دیکھا جائے تو نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک بلوچ کسی حد تک کامیاب نظر آئیں گے۔
گو کہ ان کے دور میں بھی بلوچستان میں مبینہ طور پر کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے گئے لیکن بہرحال ان کے مخالفین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آبائی شہر تربت میں کئی ترقیاتی سکیموں پر توجہ دی۔
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر پاک ایران آر سی ڈی شاہراہ پر بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات سامنے آئے، جو کئی قیمتی جانیں ضائع ہونے کا سبب بنتے چلے آ رہے ہیں۔ دالبندین کے قریب مقامی شہریوں نے مزید قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچانے کی خاطر کچھ اور سمجھ میں نہ آتے ہوئے اپنے علاقوں کو حادثات سے محفوظ رکھنے کے لیے اونٹ ذبح کیا، کچھ ایسا ہی ضلع کے دوسرے شہروں میں بھی کیا گیا۔
صدقہ دینا یقیناً نیک عمل ہے لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ اس طرح کے پے در پے حادثات کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔ بے روزگاری اس ضلع کا ایک نہایت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ چاغی کا نوجوان مجبوراً ایران سے سمگل شدہ پیٹرول یا پھر ڈیزل کے کاروبار سے وابستہ رہا ہے۔ یہ پیٹرول بسوں، ٹرکوں یا عام پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے بلوچستان اور افغانستان پہنچایا جاتا ہے۔
یہ چلتے پھرتے بم ہیں۔ پیٹرول سے لدی یہ گاڑیاں تصادم کی صورت میں ہولناک حادثوں کا سبب بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر چاغی کا مقامی کسی اور روزگار کی جانب دیکھتا ہے تو سینڈک کا جاری و ساری منصوبہ ہے اور یہاں کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ چین سے کیے گئے اس معاہدے میں ٹھیکیداروں (سیاسی اور قبائلی شخصیات) کی من مانی کی وجہ سے کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ یہ منصوبہ پاک چین دوستی کے حوالے سے خاصی اہمیت رکھتا ہے اور پاکستان ریکوڈک کے معاملے میں اپنی گردن پھنسا چکا ہے لہٰذا سینڈک کے منصوبے سے وابستہ مسائل پر بات کرنے میں مقامی صحافی دلچسپی نہیں رکھتا۔ بے روزگاری کی وجہ سے بھی ضلع بھر میں چوری چکاری، ڈکیتی کے اعداد و شمار میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم سب جانتے ہیں کہ تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اہم جز ہے، ڈسٹرکٹ چاغی سے جہاں ایک پڑھے لکھے سینیٹ کے چیئرمین کو دوسری مرتبہ کامیابی سے ہمکنار کیا گیا ہے وہاں یہ پورا ضلع گذشتہ کئی دہائیوں سے تعلیم کے شعبے میں کوئی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ تفتان کے ایک مقامی صحافی کے مطابق یہاں سکینڈری سکولوں میں کوئی خاتون ٹیچر موجود نہیں ہے جبکہ تفتان کی آبادی 20 ہزار کے قریب ہے۔ لیڈی ٹیچرز نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں عموماً پرائمری کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع کر لیتی ہیں اور اس طرح خواتین میں خواندگی کی شرح دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔
آغا گل کے مطابق چاغی ہائی سکول میں صرف ایک سائنس ٹیچر موجود ہے جہاں طلبہ کی تعداد 12 سو کے قریب ہے۔ سکول میں تعلیمی عملہ 25 کے قریب ہے جو کہ طالب علموں کے تناسب سے بہت کم ہے۔
اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پرانے استاد کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے کی بھرتی عمل میں نہیں آتی جبکہ یہاں کے نوجوانوں کے مطابق وہ ان اسامیوں کے لیے درخواست دیتے ہیں لیکن انہیں نوکریاں نہیں ملتیں۔ 1940 میں تعمیر کیے گئے اس ہائی سکول کی عمارت مخدوش حالت میں موجود آٹھ کمرے ہیں جو کہ ان 12 سو بچوں کے لیے ناکافی ہیں اور یہاں کے بچے اکثر کھلے آسمان کے تلے اپنی کلاسز جاری رکھتے ہیں۔
ہیڈکوارٹر دالبندین پر مشتمل چار تحصیلیں ہیں جہاں چاغی میں قائم سرکاری ہسپتال میں ایک ایم ایس ڈاکٹر بھی موجود نہیں۔ صرف میڈیکل ٹیکنیشن کا عملہ پورے ہسپتال کو چلا رہا ہے۔ چاغی کے ہسپتال میں جہاں گائنی وارڈ میں تجربہ کار لیڈی ڈاکٹرز کی ضرورت ہے وہاں فقط ایک لیڈی ہیلتھ ورکر موجود ہے۔
ایمرجنسی کی صورت میں مریضوں کو دالبندین یا پھر کوئٹہ لے جایا جاتا ہے۔ دالبندین میں گورنر تبوک نے پرنس فہد ہسپتال قائم کیا جو قدرے بہتر حالت میں ہے۔
سینیٹ چیئرمین جیسے اہم ترین عہدے پر فائز چاغی کا مقامی فرد ہونے کی وجہ سے یہاں کا رحیم داد یہ امید رکھ سکتا ہے کہ جو دعوے اس اہم عہدے پر بیٹھنے کے بعد کیے گئے تھے انہیں پورا کیا جائے، جس مائنز اینڈ منرلز کی انڈسٹری کی بات کی گئی تھی وہ لگائی جائیں اور ان کے آبائی نوکنڈی شہر میں پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے۔ سینڈک پروجیکٹ کے ذریعے جو منصوبہ ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں شروع ہونے کے بعد کرپشن کی نذر ہوگیا تھا اسے بحال کیا جائے۔
یاد رہے کہ صادق سنجرانی کے بھائی بھی نیب زدگان میں شامل ہیں اور پچھلے کئی سالوں سے خود ان کے کیس کا فیصلہ نہ ہونے کے باوجود وہ سینڈک پروجیکٹ میں ایم ڈی کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
چیئرمین صادق سنجرانی کے دادا سردار سرفراز خان سنجرانی کے نام سے بنایا انٹر کالج نوکنڈی فوری طور پر مکمل کرکے وہاں تعلیمی سرگرمیاں شروع کی جائیں ورنہ اس کا صرف نام ہی باقی رہ جائے گا۔ بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات پڑوسی ملک ایران سے سستے داموں خرید کر پائپ اور لائنوں کے ذریعے عوام تک پہنچائی جائیں۔ قدرتی وسائل ایک طرف اگر اس ضلع سے ملحق دو اہم بارڈر ایران اور افغانستان پر قانونی طور پر تجارت عام کردی جائے تو نہ صرف مقامی بلکہ حکومت پاکستان بھی ٹیکس کی مد میں مالامال ہوسکتی ہے۔
گوکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدقے خیرات اور درگاہوں سے اولیا کی محبت انسان کو ذہنی سکون بخشتی ہے لیکن چاغی کے عوام اب مختلف منصوبوں کے فیتے کٹنے کے انتظار میں ہیں تاکہ صادق سنجرانی اور رحیم داد کا چاغی زاہدان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ بن جائے۔