بلوچستان میں ایٹمی دھماکے سے شاعری کو نئی علامت مل گئی۔
'میرا دل ایسے جلتا ہے جیسے آج چاغی جل گیا'
'ہم اس طرح غم کے مارے ہیں جس طرح آج چاغی بھی غم کا مارا دکھائی دیتا ہے۔'
براہوی زبان کے معروف شاعر اور ادیب منظور بلوچ نے یہ غزل اس وقت کہی جب پاکستان نے بلوچستان کے ضلع چاغی اور خاران کے سرحدی علاقے میں راسکوہ کے پہاڑ میں ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔
منظور بلوچ کے بقول 'جب یہ واقعہ ہوا تو اس وقت بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سردا ر اختر مینگل نے بیان دیا تھا کہ انہیں اس سارے واقعہ سے لاعلم رکھا گیا جس نے ہماری بے بسی اور لایعنیت کو اجاگر کیا اور یہ خیال آیا جسے میں نے غزل کی شکل میں لکھا۔'
یوم تکبیر اس دن کی مناسبت سے منایا جاتاہے جب 28 مئی 1998 کو وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں بلوچستان کے ضلع چاغی میں ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔
منظور کے مطابق اس غزل کا بنیادی ماخذ ایک عام آدمی ہے جو زندگی تو دوسرے لوگوں کے ساتھ گزار رہاہے لیکن اس کے احساسات کا وجود نہیں ہے، یعنی وہ موجود ہوتے ہوئے بھی یہاں نہیں ہے ۔
منظور بلوچ کے بقول اس واقعے نے جب ہماری کمزوری اور ہمارے صاحب اقتدار لوگوں کی بے بسی عیاں کی تو جیسے ہمارے لاشعور میں بہت سے پس پردہ عوامل موجود ہوتے ہیں اور وہ کسی وقت سامنے آجاتے ہیں، ایسا ہی میرے ساتھ اس وقت ہوا۔
منظور بلوچ کے اس غزل کو براہوی زبان کے معروف گلو کار عبیداللہ نے گایا بھی ہے جسے بہت پزیرائی ملی۔
ایرانی سرحد سے متصل بلوچستان کا ضلع چاغی پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے جس کے سرحدی شہر تفتان کو کرونا کی وبا اور ایران سے زائرین کی آمد کے بعد زیادہ بہتر طور پہ جانا گیا۔
منظور بلوچ سمجھتے ہیں کہ ہماری مثال اس یتیم بچے کی طرح ہے جو پلتا تو عام لوگوں کے درمیان ہے لیکن اس کی بات کی کسی کے لیے کوئی اہمیت نہیں۔ بلوچستان بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے اور اس کا عملی مظاہر ہ ایٹمی دھماکے کے دوران سامنے آیا۔
واضح رہے کہ 1998 میں مرکزی میں نواز شریف کی حکومت تھی اور بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ تھے۔
منظور بلوچ کے بقول ،جب اتنے بڑے واقعہ کا ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ ( سردار اختر مینگل )کو علم نہیں جو خود ایک بڑے قبیلے کا سردار ہے اور اس کا باپ ( سردار عطاء اللہ مینگل) بھی صوبےکے پہلے وزیراعلٰی رہ چکا ہے تو کسی بھی شاعر کو جو حساس ہو، اسے یہ بات متاثر کرتی ہے۔
علم دوست برادری کے مطابق چاغی نے بلوچستان میں بولی جانے والی بلوچی اور براہوی زبان کی شاعری میں ایک استعارے اورعلامت کی شکل اختیا ر کرلی ہے اور اس پر آج بھی کسی نہ کسی شکل میں لکھا جارہا ہے ۔
منظور بلوچ کے مطابق ایٹمی دھماکوں نے ہماری شاعری کو نیا استعارہ دیا۔ شاعری میں چیزوں کے معنی بدل جاتے ہیں جیسے آسمان ہے تو شاعری میں یہ ظالم ، باپ اور دور کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور دل جو بظاہر ایک پمپنگ مشین ہے لیکن شاعر اسے ایک کائنات سمجھتا ہے۔
شناخت کا یہ بحران آج بھی موجود ہے۔ منظور بلوچ کے مطابق بلوچستان میں جتنے بڑے واقعات ہوئے ہیں ان میں بلوچ موجود نہیں اور یہ لایعنی شے بن گئے ہیں۔ اس لیے شاعر کو جبر اور نہ ہونے کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔
دوسری جانب خاران کے یونین کونسل راسکوہ کے رہائشی کرنل قذافی بلوچ کے مطابق جہاں ایٹمی دھماکہ ہوا وہ علاقہ خاران کا ہے لیکن مشہور چاغی ہے اور متاثر بھی یوسی راسکوہ کا علاقہ ہے۔
کرنل قذافی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یونین کونسل راسکوہ میں چوبیس دیہات ہیں جن میں پہاڑ سے قریب کا علاقہ کوہ پشت ہے، جس کے مکینوں نے ایٹمی دھماکے کے بعد نقل مکانی کی۔
کرنل قذافی کے مطابق راسکوہ یونین کونسل ایٹمی دھماکےسے قبل ایک زرعی علاقہ تھا جہاں پیاز ،انگور ،انار کے باغات کی بہتات تھی اور اسی علاقے سے پورے تین ضلعوں کو پھلوں کی سپلائی ہوتی تھی۔
قذافی کے بقول ،اب یہاں چشموں کا پانی کم ہوگیا اور انار، انگور کے باغات خشک ہوگئے ہیں۔ کچھ علاقوں میں ہیں لیکن راسکوہ پہاڑ کے قریب کے علاقوں میں زراعت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
قذافی نے بتایا کہ چونکہ یہ ایک پسماندہ یونین کونسل ہے اور ایٹمی دھماکے کے بعد مشہور چاغی ہوا تو اگر کوئی پیکج یا ریلیف وغیرہ ملا ہے تو وہ بھی چاغی کو ملا اور یہ علاقہ تاحال محروم ہے۔
1998 میں آج ہی کے دن اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور میں ایٹمی دھماکہ کیا گیا جس کے لیے جگہ بلوچستان کے علاقے چاغی کو چنا گیا۔ جس کے بعد اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے منایا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بائیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی ایٹمی دھماکے کے لیے استعمال ہونے والے علاقے راسکوہ کے مکین صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
کرنل قذافی کے مطابق علاقے میں ہم نے ایک میڈیکل کیمپ کا انعقاد کروایا تھا، جس میں ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوا کہ علاقے میں 65 فیصد آبادی کالے یرقان کا شکار ہے۔
قذافی کے بقول علاقے میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے اور چوبیس دیہات کے لیے صرف ایک بی ایچ یو ہے جس میں ایک ڈسپنسر، دائی اور نرسنگ اردلی کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہے۔
کرنل قذافی نے بتایا کہ علاقے میں چند سال قبل ایک نوجوان کو مرض لاحق ہوا جس میں آہستہ آہستہ اس کی جلد جلنی شروع ہو گئی اور ہم نے اسے کوئٹہ منتقل کیا۔ لیکن کسی نے اصل مرض کی تشخیص نہیں کی اور وہ ایک مہینے کے بعد چل بسا۔
علاقہ مکینوں کے مطابق راسکوہ یونین کونسل میں اکثر سکول غیر فعال ہیں اور علاقے کو ابھی تک بجلی کی سہولت بھی میسر نہیں جبکہ علاقے میں چشموں کا پانی بھی کم ہوگیا ہے ۔