ماہرین اقتصادیات اسد عمر کی بحیثیت وزیر خزانہ رخصتی اور عبدالحفیظ شیخ کی مشیرِ خزانہ کے طور پر تعیناتی کے بعد اقتصادی ٹیم میں مزید تبدیلیوں کو وزیر اعظم عمران خان کی مجبوری اور ضرورت قرار دے رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ اسد عمر سے وزارت خزانہ کا قلمدان واپس لیا گیا تھا اور ان کی جگہ عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ کی حیثیت سے وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا۔
اس بڑی تبدیلی کے دو ہفتے بعد ہی وزیر اعظم نے اپنی اقتصادی ٹیم میں مزید تبدیلیاں کر ڈالیں۔
یہ سلسلہ جمعے کو شروع ہوا جب گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ اور چئیرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) جہانزیب خان کو ان کے عہدوں سے فارغ کیا گیا، پھر ہفتے کو دونوں اداروں کے نئے سربراہان کا تقرر کر دیا گیا۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے مصر میں سینئیر عہدیدار ڈاکٹر رضا باقر کے حصے میں سٹیٹ بینک کی گورنری آئی تو کسٹمز سروسز گروپ سے تعلق رکھنے والے گریڈ 21 کے افسر احمد مجتبیٰ میمن کو ایف بی آر کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسد عمر کو عین اُس وقت وزارت خزانہ سے ہٹایا گیا جب وہ آئی ایم ایف کے ساتھ اہم مذاکرات میں مصروف تھے۔ اسی طرح سٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے سربراہان کی تبدیلی بھی ایسے اہم وقت میں ہوئی جب آئی ایم ایف کی ٹیم اسلام آباد میں موجود ہے اور اس کے ساتھ 6.4 بلین ڈالرز کے بیل آوٹ پیکج پر مذاکرات تقریبا آخری مراحل میں ہیں۔
اقتصادی امور پر لکھنے والے صحافی احتشام الحق کے مطابق وزیر اعظم کے پاس ان تبدیلیوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ملک کی اقتصادی حالت کسی صورت سنبھل نہیں پا رہی اور یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم نے اسد عمر جیسے دیرینہ ساتھی کی قربانی دی۔
احتشام الحق کا کہنا تھا: اقتصادی بدحالی سے فضا ایسی بنی کہ وزیر اعظم شاید گھبراہٹ کا شکار ہو گئے اور انہیں بعض خطرناک فیصلے کرنا پڑے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاشی امور کے ماہر صحافی ذیشان حیدر کا خیال ہے وزارت خزانہ میں سب سے بڑی تبدیلی کے بعد نچلی سطح کی تبدیلیاں متوقع تھیں۔
انہوں نے کہا: اب وزارت خزانہ کے انچارج عبدالحفیظ شیخ ہیں تو ظاہر ہے وہ اپنی ٹیم لے کر آئیں گے جو ان کا حق بھی ہے۔
ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ اس وقت وزارت خزانہ کے لیے سب سے بڑا کام آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری ہے جس کے لیے عبدالحفیظ شیخ کو ہم خیال لوگوں کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق: مشیر خزانہ کو آئی ایم ایف سے ایک بڑا پیکج بھی لینا ہے اور اس کے لیے بھی انہیں ہم خیال اور اہل ساتھیوں کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے طارق باجوہ کو تین سال کے لیے بحیثیت گورنر سٹیٹ بینک مقرر کیا تھا اور ان کی مدت ملازمت ختم ہونے میں ابھی تقریبا ایک سال باقی تھا۔
ایف بی آر کے سربراہ جہانزیب خان سے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ انہیں بری کارکردگی کی وجہ سے ہٹایا گیا۔
جہانزیب خان کی سربراہی میں ایف بی آر سالانہ ہدف پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں ٹیکسوں سے آمدن کی مد میں 350 ملین روپے کی کمی کا سامنا ہے۔
احتشام الحق کے مطابق یہ ناکامی وزیر اعظم عمران خان کے بیانات اور سوچ کے بالکل برعکس ثابت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ عام انتخابات سے قبل عمران خان ٹیکسوں کی مد میں آمدن کو دو گنا سے زیادہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا ٹیم بدلنے سے کارکردگی میں فرق پڑ سکتا ہے؟ احتشام الحق نے کہا اگر پروفیشنل اور پڑھے لکھے لوگ آتے ہیں تو چیزیں بہتری کی طرف جا سکتی ہیں۔
ذیشان حیدر کے خیال میں اسد عمر کا ہٹایا جانا زیادہ غیر متوقع اور اچانک تھا۔ ’اسد عمر کو ہٹانا وزیر اعظم عمران خان کا واقعی چونکا دینے والا قدم تھا۔‘
تاہم احتشام الحق کے خیال میں اسد عمر کو بھی بری کارکردگی کی وجہ سے جانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پر واضح ہو گیا تھا کہ وزارت خزانہ میں چیزیں ٹھیک رخ پر نہیں جا رہیں اور اسی لیے انہوں نے اتنا بڑا قدم اٹھایا۔
احتشام الحق کے مطابق: عمران خان شاید سیاسی جنگ تو جیت جائیں گے لیکن اقتصادی جنگ جیتنا ان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔
احتشام الحق اور ذیشان حیدر متفق تھے کہ آنے والے دنوں میں وزیر اعظم عمران خان اپنی اقتصادی ٹیم میں مزید تبدیلیاں بھی کر سکتے ہیں۔