ترکی کی شمولیت سے ناگورونو کاراباخ میں آرمینیائی اور ترکوں کے درمیان ایک صدی پر محیط تنازع اپنی شدید ترین شکل میں دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا۔ لیکن جنگ بندی کے محض چند ہفتوں بعد ہی کچھ افراد دونوں کو نزدیک لانے کے لیے متحرک ہو چکے تھے۔
ترکی میں پیدا ہونے اور بوسٹن کے مضافاتی علاقے لین میں رہائش پذیر 78 سالہ آپو تورو سیان انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ترک اور آرمینیائی باشندوں کے درمیان بہت کچھ مشترک ہے۔ ہمیں تعصب یا حب الوطنی کو الگ رکھتے ہوئے مل بیٹھ کر اپنی تاریخ کا تجزیہ کرنا چاہیے۔‘
گذشتہ سال دسمبر میں تورو سیان نے امریکہ میں ایک ایسی محفل میں شرکت کی جہاں ترک اور آرمینیائی تارکین وطن نے 1915 کی آرمینیائی نسل کشی سے متعلق اپنے خاندان کے واقعات سنائے۔ ناگورنو کاراباخ تنازعے کے بعد اس گروپ کی یہ اولین نشست تھی۔
تورو سیان کا خاندان اس نسل کشی سے بچ نکلا جس میں عثمانی فوجی دستوں اور کرایہ کش کردوں کے ہاتھوں 15 لاکھ کے قریب آرمینیائی زندگی سے محروم ہو گئے۔ یہ تب اس خطے میں رہائش پذیر تھے جو آج ترکی کا مشرقی علاقہ ہے۔ کئی دہائیوں بعد 1955 میں تورو سیان نے استنبول میں آرمینیائی اور دیگر اقلیتوں پر حملوں کا بذات خود مشاہدہ کیا اور بالآخر کار ترکی کو خیر آباد کہہ دیا۔
تاہم بوسٹن جانے کے بعد ان کی دوستی ایک ترک گروہ سے ہوئی۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’انہوں نے مجھے اور میں نے انہیں قبول کر لیا، ہمارے درمیان کسی امتیازی رویے کا شائبہ تک نہ تھا۔‘
پھر 1990 کی دہائی میں تورو سیان نے اپنے چچا کی ایک تحریر ترجمہ کر کے چھاپ دی جس میں انہوں نے نسل کشی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا تھا۔ ان کے ترک دوستوں نے ان سے قطع تعلق کر لیا۔
وہ کہتے ہیں، ’میرے خاندان کو جو پیش آیا وہ ایمانداری سے بتا دیا۔ میں پروپیگنڈا تاریخ نہیں بلکہ اپنے خاندان کے حقائق بیان کر رہا تھا۔‘
ترکی نے کبھی نسل کشی کا اعتراف نہیں کیا اور دونوں ممالک سمیت تارکین وطن کے درمیان بھی یہ تاریخ خلیج پیدا کرنے کا باعث ہے۔ تیس سے زائد ممالک نے اس نسل کشی کو تسلیم کیا ہے۔
ترکش امریکن تاریخ دان اور کالم نگار اوہانس کلیج گدی کہتے ہیں ’نسل کشی کا انکار ترکی کی بقا کا مسئلہ ہے۔ جنہوں نے آرمینیائی باشندوں کا قتل عام اور جلاوطنی کا منظم انداز میں بندوبست کیا وہ بعد میں وزیر، فوجی کمانڈر اور یہاں تک کہ وزیر اعظم بن گئے۔ نسل کشی پر لب کشائی کا مطلب اس بیانیے پر سوال اٹھانا ہے جس پر ملک کے وجود کی بنیاد ہے۔‘
اس نشست کے مہتمم، بوسٹن میں رہائش پذیر متحرک کارکن اور فلم ساز گونکا سونمیز پول لوگوں کی شرکت پر حیران رہ گئیں۔ وہ کہتی ہیں ’نگورونو کاراباخ جنگ کے بعد مجھے کسی مفاہمت کی امید نہیں تھی۔ لیکن اس بار ترک افراد کی شرکت معمول سے بڑھ کر تھی۔‘
دونوں کمیونیٹیوں کے درمیان مکالمے کی فضا قائم کرنے کے لیے کوشاں معدودے چند افراد میں سے ایک سونمیز پول ہیں جو بحث و مباحثے کی ایسی محفلیں گذشتہ دس برس سے منعقد کر رہی ہیں۔ نیبرز ان میمری (Neighbours in Memory) کے نام سے ان کا ذاتی آن لائن پلیٹ فارم نسل کشی اور اس کے نتائج سے متعلق نجی واقعات جمع کر رہا ہے۔ اگرچہ وہ اس وقت زندگی کی سینتالیس بہاریں دیکھ چکی تھیں جب پہلی بار وہ نسل کشی کی تاریخ سے آشنا ہوئیں۔
آرمینیائی باشندوں کے روس سے تحفظ طلب کرنے کے حوالے سے وہ کہتی ہیں ’آرمینیوں کے متعلق میرا علم تاریخ کی کلاسوں میں جو کچھ بتایا گیا اس تک محدود تھا کہ وہ دشمن کے ساتھ مل گئے تھے۔‘
گذشتہ دنوں سومنیز پول کی منظم کردہ خواتین کی محفل کا حصہ اور ترکش امریکن تاریخ دان لرنا اکمینک جیوگلو کہتی ہیں، ’تاریخی طور پر ترکی خود کو ظالم کے بجائے مغربی طاقتوں کا ستم رسیدہ سمجھتا ہے۔‘
آرمینیائی شدت پسندوں کے 1970 اور 1980 کی دہائی میں درجنوں حملوں نے ترکوں کو اس مسئلے سے مزید دور کر دیا۔ 1982 میں سومنیز پول کے دوست اور بوسٹن میں ترکی کے اعزازی سفیر اورحان گندوز کو آرمینیائی اسلحہ بردار نے بھون ڈالا۔ جس کے بعد سومنیز پول نے آرمینیائی اکثریت پر مشتمل شہر کے مضافاتی مقام واٹرٹاؤن جانا ترک کر دیا۔
پھر 2007 میں ترکش امریکن صحافی ہرانٹ ڈنک کو ترکی کے ایک قوم پرست نے استنبول میں قتل کر ڈالا۔ سومنیز پول کہتی ہیں ’اس واقعے نے مجھے ہلا کر رکھ ڈالا۔ مجھے لگا کچھ بدلنا چاہیے۔‘
منقسم سیاسی ماحول کے باوجود مفاہمت کے خواہاں متحرک سماجی کارکن 1915 سے پہلے صدیوں تک ایک ساتھ رہنے والی دو کمیونیٹیوں کے مشترکہ ثقافتی پہلوؤں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔
امریکہ میں رہنے والے ترک سماجی کارکن احسان کاریازی کہتے ہیں، ’ترکی اور آرمینیا کے سرحدی علاقوں میں زبان کا بہت حد تک ایک جیسا رنگ ہے جو خوراک اور کھانا پکانے کے معاملے میں مزید گہرا ہو جاتا ہے۔‘
صحافت کے پیشے سے وابستہ اپنی ساتھی آرنی اویتیسیان کے ساتھ مل کر انہوں نے ان علاقوں سے آرمینیائی اور ترکی عورتوں کو بلا کر ایک ساتھ کھانا پکانے اور اسے تیار کرنے کی اپنی اپنی ترکیب ایک دوسرے کو بتانے کی دعوت دی۔
اویتیسیان کہتی ہیں ’آرمینیائی ابتدا میں شرکت سے ہچکچا رہے تھے۔ لیکن جن کاروباری مالکان سے ہم نے رابطہ کیا ان کی نسبت عورتیں زیادہ کشادہ دل تھیں۔ خواتین امن کی علم بردار تھیں۔‘
یہ منصوبہ ختم ہونے کے بعد کچھ خواتین نے باہمی رابطہ برقرار رکھا اور تنازع کے دوران اختلاف کے باوجود وہ آن لائن بات چیت پر رضا مند نظر آئیں۔ اس منصوبے میں شریک ایک عورت کہتی ہیں کہ ’یہ بہت نازک وقت ہے۔ مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ میری آرمینیائی دوست اتنی شدید قوم پرست ہو گی۔ لیکن ہم خواتین کو اس مسئلے کے حل کے لیے مل کر کوشش کرنا ہو گی۔‘
دونوں خواتین نے اپنے نام پوشیدہ رکھنے کی خواہش کی ہے۔ ان کی آرمینیائی دوست کا کہنا تھا کہ ’جنگ سے متعلق فیس بک پر ان کے کمنٹ سے مجھے مایوسی ہوئی۔‘
سماجی کارکنان کہتے ہیں باہمی تعلقات ہمیشہ اس طرح کے مسائل کا شکار نہیں تھے۔ ترکی میں نسل کشی کے متعلق عوامی سطح پر گفتگو پہلی بار دو ہزار کی دہائی میں ممکن ہوئی۔
ترکی نے 1915 کے واقعات کے بارے میں آزادانہ تحقیق کی اجازت دی۔
کلیج گدی کہتے ہیں ’یہ لبرل ازم کی ترویج کے لیے وضع کی گئی عمومی منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ جب لوگ نسل کشی کے بارے میں زیادہ آزادی سے بول اور لکھ سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ترکی میں جمہوریت ترقی کر رہی ہے۔
جب ایسا کرنا خطرناک محسوس ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ترکی میں آمریت کا راج ہے۔‘
لیکن 2015 میں حکومت نے استنبول میں صد سالہ تقریبات کی اجازت دینے کے باوجود نسل کشی کا اعتراف کرنے سے گریز کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2016 میں ترک حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد مفاہمت کے لیے کام کرنے والی بہت ساری تنظیموں پر حزب اختلاف سے ممکنہ روابط کے شبہے میں پابندی عائد کر دی گئی۔
پیرس میں رہائش پذیر پولیٹیکل سائنسدان اور 2008 میں نسل کشی کو تسلیم کرنے کی مہم کے شریک بانی احمد انسیل کہتے ہیں ’ترکی میں ثقافتی آزادی مزید کم ہوئی ہے۔ قوم پرست عناصر آج زیادہ مضبوط اور زیادہ جارحانہ ہیں۔‘
قوم پرستی کے یہ جذبات خاص طور پر فرانس میں دیکھے گئے۔
گذشتہ جنگ کے دوران فرانس کے شہروں میں ترک قوم پرستوں کی آرمینیائی لوگوں پر طنزیہ اور دھمکی آمیز وڈیوز گردش کرنے کے بعد فرانس کو شدید قوم پرست ترک تنظیم گرے وولوز پر پابندی لگا نا پڑی۔
انسیل کہتے ہیں ’آج فرانس کے اندر آرمینیائی اور ترک باشندوں کو کسی منصوبے میں ایک ساتھ شامل کر کے اسے چلانا ممکن ہی نہیں۔‘
فنون سے وابستہ توروسیان اس تقسیم کا ذمہ دار عوام کے بجائے سیاست دانوں کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’یہ بہت افسوس ناک ہے کہ دونوں طرف بہت سی انسانی زندگیاں ضائع ہو گئیں اور ہمارے رہنما ہمیں ایسی خونی تاریخ کے دہانے پر لے آئے۔‘
کچھ دیگر افراد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اپنے دیس میں خوشحالی کا راز امن میں پوشیدہ ہے۔
پفایزر اور موڈرنا ویکسین کے حوالے سے کارایازی کہتے ہیں ’پہلی دو کرونا وائرس ویکسینیں جرمن اور ترک ، لبنانی اور آرمینیائی کمپنیوں نے تیار کیں۔
اگر ہم اختلاف کو پس پشت ڈال سکیں تو ہماری صلاحیتیں اپنے ملک کے لیے صرف ہوں گی۔‘
© The Independent