یہ واقعہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر دور واقع ضلع نوشہرو فیروز کے شہر پڈعیدن میں سنیچر کی شب کو پیش آیا تھا۔ مقتول صحافی علی شیر راجپر کا تعلق سندھی روزنامہ ’عوامی آواز‘ سے تھا۔
پڈعیدن تھانے کے ایس ایچ او جمشید علی کے مطابق مقتول صحافی علی شیر راجپر کے بھائی داود راجپر کی فریاد پر چھ افراد بشمول حبیب راجپر، پڈعیدن ٹاون کمیٹی کے چیئرمین شکیل احمد، نظر محمد، غلام علی اور دو نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر نمبر 77/2019 درج کردی گئی ہے جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302، 109، 147، 148، 337 اور 505 کے علاوہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہیں۔
پولیس نے دعوی کیا ہے کہ حبیب راجپر نامی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم نے ہی مقتول پر مبینہ طور پر گولیاں چلائیں تھیں۔
پڈعیدن پریس کلب کے صدر ساجد جویو کے مطابق یہ واقعہ سنیچر کی رات نو بجے پیش آیا، جب صحافی علی شیر راجپر کام ختم کرکے دوسری منزل پر قائم پریس کلب سے گھر جانے کے لیے اترے تھے تو دروازے کے باہر موٹر سائیکل پر سوار چند مسلح افراد نے ان پر پستول سے فائر کیے۔ ان کو پانچ گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہلاک ہوگئے۔
ساجد جویو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ علی شیر راجپر کو کچھ عرصے سے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں، کیونکہ انھوں نے پڈعیدن ٹائون کمیٹی میں مبینہ کرپشن کے خلاف کئی خبریں رپورٹ کی تھیں۔ انھوں نے اس سے پولیس حکام کو تحریری طور پر آگاہ بھی کیا تھا تاہم ایس ایس پی نوشہرو فیروز کیپٹن ریٹائرڈ طارق ولایت نے انڈپینڈنٹ اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ صحافی علی شیر راجپر کو ان کے ایک رشتے دار نے ذاتی دشمنی میں قتل کیا۔
بقول ان کے ' کچھ عرصہ قبل علی شیر راجپر نے اپنے ایک رشتہ دار پر فائرنگ کی تھی، جس کی ایف آئی آر بھی درج ہے۔ ’اسی رشتہ دار نے بدلہ لینے کے لیے فائر کرکے انھیں قتل کردیا۔'
اس سے قبل مقامی صحافیوں اور مقتول کے ورثاء نے قتل کا مقدمہ درج نہ ہونے اور ملزمان کی عدم گرفتاری پر مقتول کی لاش نیشنل ہائی وے پر رکھ کر دو گھنٹے دھرنا بھی دیا تھا جبکہ کراچی، حیدرآباد، کوٹری اور دیگر شہروں میں صحافی تنظیموں کی جانب سے بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔
نوشہرو فیروز یونین آف جرنلسٹس کے صدر زاھد قائم خانی نے مطالبہ کیا کہ صحافی علی شیر راجپر کے قاتلوں کی گرفتاری کے ساتھ ان کے خاندان کی مالی مدد بھی کی جائے۔
روزنامہ عوامی آواز کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر جبار خٹک نے واقعے کی عدالتی انکوائری کروانے کا مطالبہ کیا۔
رواں سال پاکستان میں صحافیوں کی جبری گمشدگی، گرفتاری اور ریاست کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ جبکہ یہ واقعہ آزادی صحافت کے عالمی دن کے ایک دن کے بعد پیش آیا۔ صحافیوں پر کام کرنے والے ادارے پاکستان پریس فاونڈیشن کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک ہے۔ پاکستان پریس فاونڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2002 سے 2019 تک 72 صحافی قتل کئے گئے۔