افغان ٹی وی ون کے مطابق افغانستان میں امن کے لیے امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے کابل پہنچ کر سپریم قومی مفاہمت کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبد اللہ سے ملاقات کی۔
خلیل زاد کے دورہ کابل کا ایک موضوع ترکی کے شہر استنبول میں رواں ماہ ہونے والے اہم افغان امن سربراہی اجلاس کا شیڈول ہے۔
دونوں فریق استنبول سربراہی اجلاس کے امور پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
توقع ہے کہ استنبول سربراہ اجلاس میں جنگ بندی، افغان عبوری حکومت اور مستقل امن معاہدے کے بارے میں اہم امور زیر بحث لائے جائیں گے۔
یہ اجلاس اقوام متحدہ کے زیراہتمام اور ترکی میں امریکی حمایت کے ساتھ طالبان رہنماؤں ، سیاسی جماعتوں اور افغان حکومت کے مابین رواں ماہ کے وسط (آریانہ نیوز کے مطابق سولہ اپریل) میں ہونے والا ہے۔
ملاقات کے بعد خلیل زاد کابل سے دوحہ روانہ ہوگئے ہیں۔ قطری دارالحکومت میں انہوں نے افغانستان کے معاملے پر طالبان رہنماؤں، امن مذاکراتی ٹیم کے ممبروں اور دلچسپی رکھنے والے ممالک کے سفارت کاروں سے اہم ملاقاتیں کیں۔
صدر اشرف غنی سے ملاقات بھی امریکی مذاکراتی ٹیم کے ایجنڈے میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان حکومت طالبان کے ساتھ کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے ، اور سپریم نیشنل مصالحتی کونسل ایک امن منصوبے پر کام کر رہی ہے جس کی جلد توقع کی جارہی ہے۔
یہ اجلاس دوحہ امن معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے موقع پر ہوگا تاحال یکم مئی افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کی آخری تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر امریکی فوجیوں کو افغانستان سے انخلا کرنے کا عمل یکم مئی تک ممکن نہیں ہے لیکن انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ فوج جلد ہی افغانستان سے نکل جائے گی۔
افغانستان میں طالبان اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں تشدد کو کم کرنے کے اپنے وعدوں کے باوجود ملک میں عام شہریوں کی بھاری ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
اپنے ٹویٹ بیان میں افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے لکھا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ طالبان اپنے قائدین کی شناخت ظاہر کریں۔
انہوں نے کہا ’افغان باشندے ، اقوام متحدہ ، ریزولوشن مشن کے ممبر ممالک ، امدادی ایجنسیوں اور تمام متعلقہ بین الاقوامی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنے قائدین کے تجربات کو ہمارے ساتھ شریک کرنے کے لیے طالبان سے کہیں۔ ہم سب کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم کس کے ساتھ صلح کر رہے ہیں۔‘
طالبان کی جانب سے تاحال کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
.......................................................
(یہ خبر انڈپینڈنٹ فارسی کی معاونت سے شائع کی گئی ہے۔)