کرونا کی وبا شروع ہونے کے بعد جو رواج سب سے عام ہوا وہ سینیٹائزر کا استعمال تھا۔ ہم خود بلا مبالغہ بالٹیوں کے حساب سے سینیٹائزر استعمال کر چکے ہیں۔ دفتروں، دکانوں، بینکوں اور سکولوں میں داخل ہوتے وقت سینیٹائزر کی بوچھاڑ بھی دیکھی۔
یہی نہیں، جب ہم نے گھر پر سودا منگوانا شروع کیا تو شاپنگ بیگ ایک دو دن کے لیے رکھ چھوڑتے تاکہ وائرس مر جائے تو اسے چھوئیں۔ اس کے علاوہ شروع کے دنوں میں یہ نظارہ بھی عام تھا کہ لوگ دروازے کو ہاتھ کی بجائے کہنی سے کھولنے کی کوشش کرتے تھے، یا انتظار کرتے تھے کہ کوئی اور دروازہ کھولے تو وہ اندر جائیں۔
لیکن اب امریکی ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) نے خبر دی ہے کہ کسی سطح پر وائرس کی مقدار اتنی کم ہوتی ہے کہ اس سے کرونا کا مرض لاحق ہونے کا خطرہ دس ہزار میں ایک سے بھی کم ہے۔ اسی ہفتے جاری ہونے والی ایڈوائزری میں ادارے نے کہا ہے کہ نئی تحقیقات کے مطابق وائرس ہوا میں معلق قطروں کے ذریعے ہی پھیلتا ہے جس کا ذریعہ کوئی متاثرہ شخص ہو سکتا ہے۔
امریکی یونیورسٹی ورجینیا ٹیک کی وائرس کی ماہر لنزی مار نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو بتایا: ’اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ آج تک کسی شخص کو آلودہ سطح چھونے کے ذریعے کرونا کا مرض لگا ہو۔‘
رٹگرز یونیورسٹی کے مائیکروبائیولوجسٹ امانوئل گولڈمین نے کہا، ’یہ وہ وائرس نہیں جو چھونے سے پھیلے۔ یہ وہ وائرس ہے جو سانس سے پھیلتا ہے۔‘
اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ سکولوں، دکانوں، دفتروں اور گلی محلوں کو سینیٹائزر چھڑک چھڑک کے مصفا بنانے کا عمل بھی بالکل بےکار ہے۔ اس کے علاوہ وہ جو ہم کہنی سے دروازے کھولا کرتے تھے، وہ کام بھی بالکل غیر ضروری تھا۔
اب ہم انتظار کر رہے ہیں کہ لوگ قطار باندھ آ جائیں کہ سائنس دانوں کی کسی بات پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ کل کو کہتے تھے دیسی گھی صحت کے لیے مضر ہے، اب کہتے ہیں ٹھیک ہے۔ کرونا کی وبا شروع ہوئی تو تحقیق آئی کہ مختلف سطحوں پر کرونا وائرس کئی دن تک زندہ سلامت رہتا ہے، اب کہہ رہے ہیں کہ اس سے مرض نہیں پھیلتا۔ کبھی کہتے تھے ماسک کی ضرورت نہیں، اب کہتے ہیں ماسک کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ آخر بندہ ان کی کس بات پر یقین کرے، کس پر نہ کرے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بات یہ ہے کہ سائنس معلومات یا ہدایات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل طریقۂ کار کا نام ہے۔ یوں سمجھیے کہ سائنس منزل نہیں، بلکہ بتدریج سفر کا عمل ہے۔ اس سفر کے دوران مشاہدے اور تجربے کی مدد سے علم حاصل کیا جاتا ہے، اسے پہلے سے موجود علم کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے، اور عقلِ سلیم (کامن سینس) کی کسوٹی سے گزار کر قبول یا مسترد کر دیا جاتا ہے۔
سائنس کی اصل طاقت یہی ہے کہ یہ تمام انسانوں کی مشترکہ میراث ہے، جس میں بغیر کسی امتیاز کے تمام عالمِ انسانیت نے اپنے طریقے سے حصہ ڈال رکھا ہے۔ کوئی بھی ایجاد یا دریافت دیکھ لیجیے، اس کے پیچھے آپ کو صدیوں کا عمل نظر آئے گا۔ جس طرح ایک وقت میں ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھ کر دیوارِ چین تعمیر کی گئی، سائنس میں بھی چھوٹی چھوٹی دریافتیں اور مشاہدے رفتہ رفتہ اکٹھے ہو کر مجموعی علم میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
کرونا وائرس ایک نیا وائرس ہے۔ اس کا نام ہی ’ناول‘ کرونا وائرس ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں معلومات بھی ایک دم اور اچانک نہیں رفتہ رفتہ اور بتدریج ہی اکٹھی ہوں گی، اور ان میں ترمیم اور تبدیلی ہوتی رہے گی۔ یہی سائنس کا ارتقائی عمل ہے۔
امید ہے کہ ان مشترکہ معلومات کی روشنی میں نہ صرف اس وائرس، بلکہ مستقبل میں آنے والے دوسرے وائرسوں کا بھی بہتر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے گا۔ کرونا وائرس پر اربوں ڈالر کی مالیت کی تحقیق ہو چکی ہے جس سے وائرس کے علاوہ انسانی مدافعتی نظام کے بارے میں بھی بیش بہا معلومات حاصل ہوئی ہیں، جو آنے والے برسوں میں کام آتی رہیں گی۔