2016 میں میں نے ایک معتبر اخبار کے لیے ’مدارس کی حالت زار‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا۔ اس کے بعد کیسے مجھے قانونی معاملات میں بھی الجھانے کی کوشش کی گئی، درخواستیں اور دھمکیاں الگ سے موصول ہوئیں۔ لیکن اس کے باوجود میری رائے میں ایک رتی برابر فرق بھی نہیں آیا ہے؟ خوشی اس بات کی ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے گذشتہ دنوں پریس کانفرنس میں میرے درد کو جو زُباں ملے والا کام کیا ہے۔
جب نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تو اِس میں یہ بات شامل تھی کہ پاکستان بھر کے مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ چونکہ اُس وقت لوہا گرم تھا لہذا مدارس نے کاغذوں میں تو اس بات کی تائید کی لیکن اکثر نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ جن مدارس نے ڈیٹا فراہم کیا، وہ نامکمل تھا۔ مدارس کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن صدقات وغیرہ ہوتے ہیں اور حقیقت پوچھیں تو چونکہ کوئی رسید وغیرہ تو جاری نہیں ہوتی یا ہر ٹرانسیکشن کا ریکارڈ نہیں ہوتا تو ان کا کوئی حساب ہی نہیں ہوتا۔ یہ ڈیٹا بھی جمع کروائے گئی معلومات میں سے غائب تھا۔ آسان الفاظ استعمال کروں تو اُس وقت کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔
اب فوج یہ چاہتی ہے کہ سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر پاکستان بھر کے مدارس کو رجسٹر کیا جائے، ان کے نصاب کو اپ گریڈ کیا جائے اور اس میں عصری مضامین کو شامل کیا جائے۔ پریس کانفرنس میں بتایا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے دو ارب روپوں کی ضرورت ہے۔ اگر آپ تصویر کو درست زاویے سے دیکھیں تو یہ اس بڑے مقصد کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ دینی مدارس کی تنظیمیں بھی حکومت کی اصلاحات کی بظاہر حامی رہی ہیں تاہم اس نظام کو آسان بنانے کی بات کرتی ہیں۔
مدارس کے پڑھے ہوئے 90 فیصد بچے کیا کرتے ہیں؟ کسی مسجد میں موذن یا امام ہوتے ہیں، کسی مدرسے میں پڑھاتے ہیں، جن کی قسمت اچھی ہوتی ہے وہ جمعہ کے خطبوں کے پیسے اکٹھے کرتے ہیں اور جو زیادہ سیانے ہوتے ہیں وہ نئے مدارس کھول لیتے ہیں۔ پھر اُس آمدنی سے اپنے گھر،گاڑیاں تو بن جاتی ہیں لیکن مدارس کی حالت ویسے کی ویسے ہی نازک رہتی ہے۔
یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ کام اب رُکنا نہیں چاہئے۔ اگر آج بھی نیت سے کام شروع ہوتا ہے تو کم ازکم 10 سے 12 سال کا عرصہ ان معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے درکار ہوگا۔ اس کے لیے ایک طاقتور ادارے کی ضرورت ہے۔ مدارس کو ملنے والی گرانٹس، غیرملکی فنڈنگ اور دیگر آمدن کا بھی ریکارڈ رکھنا ضروری ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ایسا نہ کیا تو ایف اے ٹی ایف اور گرے لسٹ والے معاملات چھوٹے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔