بہاولپور سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ ہدیٰ ارشد نے چھوٹی سی عمر میں کچھ ایسے کام کیے ہیں جن کے بارے میں بڑے ساری زندگی سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ اپنے والدین اور اساتذہ کی مدد سے وہ نہ صرف ایک کتاب کی مصنفہ بن چکی ہیں بلکہ اپنا ایک ای میگزین بھی چلاتی ہیں۔
یہی نہیں وہ عنقریب سائنسی تحقیق کے حوالے سے ایک ویب سائٹ بھی لانچ کرنے والی ہیں جبکہ ان کا یوٹیوب چینل پہلے ہی چل رہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں نویں جماعت کی طالبہ ہدیٰ نے بتایا کہ اپنی کتاب کو چھپوانے کی نیت سے انہوں نے کام کا آغاز کرونا وبا کے دوران قرنطینہ کے دنوں میں کیا۔ ’میں یہ کتاب لکھ تو 2018 سے رہی تھی۔ کچھ نظمیں، تحریریں، وغیرہ میں لکھتی رہتی تھی مگر انہیں کتاب کی شکل میں چھپوانے کا خیال مجھے قرنطینہ کے دنوں میں آیا۔ اس وقت سکول وغیرہ بند تھے تو میرے پاس وقت تھا، لہذا میں نے اپنی تحریروں کو اکٹھا کرکے اسے کتاب کی شکل دی، جس کا نام میں نے ’اے ڈیپ اوشین‘ ( A Deep Ocean) رکھا۔‘
ہدیٰ نے بتایا کہ اس کتاب میں شامل تحریریں موٹیویشنل یعنی حوصلہ بڑھانے اور مثبت سوچ کو اجاگر کرنے کے حوالے سے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کتاب چھپوانے سے پہلے ان کے سکول کے اساتذہ نے اسے پڑھا اور جائزہ لیا اور اس کے بعد اسلام آباد، راولپنڈی کے اشاعتی ادارے ’اوراق‘ نے اکتوبر2020 میں اسے شائع کیا۔
انگریزی زبان میں 112 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے بارے میں ہدیٰ کا مزید کہنا ہے کہ اوراق کی ویب سائٹ پر ان کی کتاب کے بارے میں اچھے تبصرے آ رہے ہیں، جس سے انہیں کافی خوشی ہو رہی ہے۔
ہدیٰ کی استاد حافظہ فروا عروج ساتویں جماعت سے ہدیٰ کو انگریزی پڑھا رہی ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے فروا کا کہنا تھا کہ ہدیٰ اگر 70 فیصد لائق ہیں تو 170 فیصد محنتی طالب علم ہیں۔
بقول فروا: ’ہدیٰ ایک بہترین انسان ہیں، اسی لیے وہ انسانوں کو محسوس کرتی ہیں، ان کی تکلیف کو دل کی گہرائی سے جاننا چاہتی ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی ہم جماعت ساتھیوں میں سے اگر کسی کو کچھ ہو جاتا ہے تو وہ فوراً ان کے لیے کھڑی ہو جایا کرتی ہیں۔‘
فروا نے بتایا کہ وہ اپنی جماعت کی بچیوں کو کریٹو رائٹنگ بہت زیادہ کرواتی تھیں۔ ہدیٰ ایک مرتبہ ان کے پاس کچھ اپنی تحریریں لے کر آئیں۔ شروع میں تو ان میں غلطیاں ہوتی تھیں، جنہیں میں درست کر دیا کر دیتی تھی، لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کی تحریریں اچھی ہو گئیں، لیکن انہیں نہ سکول نے چھاپا اور نہ کسی اور نے۔ ’جب ہدیٰ کی کتاب چھپی تو یہ سب کے لیے یہ ایک انتہائی حیران کن بات تھی اور پھر سب نے ان کی کتاب کی تعریف کی۔‘
بات صرف کتاب تک محدود نہیں ہے۔ ہدیٰ نے گذشتہ برس جولائی میں ہی اپنا ای میگزین ’let’s Pen Down‘ بھی شروع کیا۔
اس میگزین کے حوالے سے ہدیٰ کہتی ہیں کہ انہیں کبھی اپنی تحریریں جریدوں یا اخباروں میں چھپوانے کا موقع نہیں ملا۔ ’مجھے خیال آیا کہ جس مسئلے سے میں گزر رہی ہوں اس سے دوسرے نوجوان نہ گزریں تو کیوں نہ ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے جس پر نوجوان طالب علم اپنی تحریریں، آرٹ ورک وغیرہ شائع کرسکیں۔ اس میگزین کے ذریعے میں عوام میں مختلف سماجی مسائل کے حوالے سے آگاہی بھی پھیلانا چاہتی ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس ای میگزین کا ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ اور انسٹا پیج بھی ہے، جہاں ان سے نوجوان مصنف رابطہ کرتے ہیں اور انہیں اپنی تحریریں بھیجتے ہیں، جن کا جائزہ وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر لیتی ہیں اور جب انہیں یہ یقین ہوجاتا ہے کہ تحریر اسی مصنف کی اپنی لکھی ہوئی ہے اور اس کا مواد بھی مصدقہ ہے تو وہ اسے اپنے ای میگزین پر شائع کر دیتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں گرافک ڈیزائننگ بھی آتی ہے، اس لیے ای میگزین کا لے آؤٹ اور تحریروں کے ساتھ چھپنے والی الیسٹریشن یا پوسٹرز وہ خود ہی بناتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی سالگرہ 20 تاریخ کو ہوتی ہے اس لیے اس میگزین پر ہر مہینے کی 20 تاریخ کو نئی تحریریں شائع کی جاتی ہیں۔ وہ اس میگزین پر اپنی تحریر شائع کروانے کے کوئی پیسے نہیں لیتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سب کے علاوہ ہدیٰ اب ایک اور کوشش کرنے جا رہی ہیں۔ وہ یہ کہ ہدیٰ جلد ہی ایک ویب سائٹ ’سائنٹفک ہائی وے‘ (Scientific Highway) کے نام سے شروع کرنے والی ہیں۔ اس نام سے ان کا یو ٹیوب چینل تو بن چکا ہے لیکن ویب سائٹ کا کام تھوڑا باقی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی چینل پر چند ہی ویڈیوز ہیں لیکن میٹرک کے امتحانات سے فارغ ہو کر وہ اس پر اپنی پوری توجہ دیں گی۔
ہدیٰ نے بتایا: ’سائنس میں مجھے کافی دلچسپی ہے، اس لیے نصابی کتابوں میں لکھے سوالوں کے جواب پڑھ کر میرے اندر اور سوال پیدا ہو جاتے ہیں یا بعض موضوعات بہت خشک ہوتے ہیں اور انہیں پڑھنے میں دلچسپی پیدا نہیں ہوتی، اسی لیے میں ان کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ تحقیق کرتی ہوں اور مختلف ریسرچ پیپرز اور دیگر سائنس دانوں کی تحریریں، آکسفورڈ یونیورسٹی اور دیگر بڑی یونیورسٹیوں کے ریسرچ پیپرز، انسائکلوپیڈیا وغیرہ پڑھتی ہوں تاکہ مجھے میرے سوالوں کے جواب ملیں کیونکہ بورنگ موضوعات پر جتنی ریسرچ کی جاتی ہے آپ کے خیالات اتنے ہی کلئیر ہوتے جاتے ہیں اور آپ کو پھر وہ معلومات بھولتی نہیں ہیں۔‘
بقول ہدیٰ: ’میں اپنی کی ہوئی ریسرچ کو اپنی کلاس میں جا کر باقی طالب علموں کے ساتھ شیئر کیا کرتی تھی جس سے ان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب بھی مل جاتے تھے۔ بس یہیں سے مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں مختلف قسم کی سائنسی معلومات جو مشکل زبان میں ہیں اور بیشتر طالب علموں کو ان کا علم نہیں ہے یا انہیں سمجھ نہیں آتی، انہیں اپنی آسان انگریزی میں ترجمہ کرکے اپنی اس ویب سائٹ پر تمام ریفرنسز کے ساتھ پوسٹ کروں۔‘
ہدیٰ کہتی ہیں کہ انہیں ریاضی اور فزکس میں کافی دلچسپی ہے اور ان کی خواہش بھی یہی ہے کہ وہ مستقبل میں ان ہی مضامین کو آگے لے کر چلیں۔ ’مجھے یقین ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب میں خود سائنس کی دنیا میں کوئی بڑا کام کروں گی۔ میرے خیال میں اس سفر کی شروعات ہو چکی ہے۔‘