یہ تحریر مصنف کی آواز میں سننے کے لیے یہاں کلک کریں
تحریک لبیک کے رہنما کی گرفتاری کے بعد کے احتجاجی منظرنامے نے چند اہم سماجی، سیاسی، انتظامی اور فکری سوالات کو جنم دیا ہے۔ معاشرہ اگر اجتماعی خود کشی پر اتفاق رائے نہیں کر چکا تو اسے ان سوالات پر غور کرنا چاہیے۔
پہلے سوال کا تعلق حکومت کی انتظامی اہلیت سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ حالات خراب ہوئے ہیں یا خراب کیے گئے ہیں؟ اس سوال میں جہانِ معنی پوشیدہ ہے۔ اچانک ایسی کون سی افتاد آن پڑی تھی کہ سڑک سے تحریک لبیک کے رہنما کو گرفتار کر لیا گیا؟ ڈیڈ لائن کے خاتمے میں ابھی وقت تھا۔ پہلے بھی آپ نے مذاکرات کیے تھے اب بھی حکومت انہیں کسی بھی سطح پر انگیج کر سکتی تھی اور بات چیت کے ذریعے کوئی راستہ نکالا جا سکتا تھا۔ انہیں گھر پر نظر بند بھی کیا جا سکتا تھا۔
لیکن اگر گرفتاری ہی مقصود تھی تو کیا حکومت کے پاس کوئی پلان تھا کہ رد عمل آیا تو اس سے کیسے نبٹا جائے گا؟ حالات و واقعات کی امکانی کروٹ کی تفہیم کے لیے کہیں کوئی غورو خوض کیا گیا تھا یا وزیر اعظم کی طرح عثمان بزدار صاحب کو بھی حالات و واقعات کا علم بہت بعد میں ٹی وی سے ہوتا ہے؟
دوسرا سوال تحریک لبیک کی سیاسی بصیرت سے لپٹا ہے۔ تحریک لبیک پنجاب کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے جس نے گذشتہ انتخابات میں 22 لاکھ کے قریب ووٹ لیے ہیں۔ اتنے بڑے ووٹ بنک کی حامل جماعت کا سربراہ گرفتار ہو جائے تو کیا احتجاج ریکارڈ کرانے کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا جو تحریک لبیک نے اختیار کیا؟
پریس کانفرنس کر کے قوم کے سامنے اپنی بات رکھی جا سکتی تھی، عدالت میں گرفتاری کے خلاف رٹ دائر کی جا سکتی تھی اور پر امن احتجاجی جلسہ وغیرہ بھی کیا جا سکتا تھا لیکن پورے ملک کے زمینی رابطے معطل کر دینا کیا کسی سیاسی جماعت کا رویہ ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ چیز ہم پہلے کراچی میں دیکھ چکے۔ جب مزاج ناز برہم ہوتا تھا تو شہر بند ہو جاتا تھا۔ اب کیا پورے ملک کا مستقبل یہی ہے؟ اور اگر یہی ہے تو کیا یہ محض حادثہ ہے یا اس میں کہیں کوئی اہتمام بھی شامل ہے کہ مزاج ناز برہم ہو گا تو ایک گھنٹے کے نوٹس پر ملک کا نظام مفلوج ہو جائے گا؟
تیسرے سوال کا تعلق سماج، ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق سے ہے۔ مذہب بنیادی طور پر تزکیہ اور خیر خواہی کا نام ہے۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے مذہب کو گروہی، سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور لوگوں کا استحصال کیا گیا۔ کچھ لوگ اللہ کے حضور جا پہنچے اور کچھ ریٹائر ہو گئے لیکن ان کے فیصلوں کا آزار آسیب بن کر ہمارے تعاقب میں ہے۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں جس مذہبی بیانیے کو استعمال کیا گیا اس کا منطقی نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ چیزوں کو جس ترتیب سے شروع کیا جائے ضروری نہیں وہ ویسی ہی رہیں۔
ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی، اس کے ہاں اولاد نرینہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کیا ہم یہ آخری فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہم نے ہر دس بیس سال بعد ایک بحران سے دوچار ہونا ہی ہونا ہے؟
ریاست کا مملکتی مذہب اسلام ہے۔ لیکن اسلام کی فلاحی ریاست کے فوائد آج تک لوگوں تک نہیں پہنچ سکے۔ اہل مذہب نے بھی اسے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ بھٹو کے خلاف تحریک مذہب کے نام پر اٹھائی گئی اور ضیا الحق صاحب آئے تو گویا حق آ گیا اور تحریک ختم ہو گئی۔ عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ جس سے جہاں اختلاف ہوا اس کی اسلام دوستی پر سوال اٹھا دیا گیا۔ آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ لوگ سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ کیا ملک کی نجات اب سیکولرزم میں ہے۔
چوتھا سوال گویا یہ ہوا کہ سماج کو یہاں تک لے آنا اہل مذہب کی کامیابی ہے یا ناکامی ہے؟
کیا انہیں احساس ہے کہ وہ جسے اپنی قوت سمجھ رہے ہیں یہ اصل میں ان کے بے دست و پا ہونے کا مقدمے کا آغاز ہے۔ خلق خدا کو آپ جتنا پریشان کریں گے، سماج میں آپ اتنے ہی اجنبی ہوتے چلے جائیں گے۔ مغرب اس تجربے سے گزر چکا۔ اب کیا ہماری باری ہے؟
پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں امور خارجہ کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کی کچھ خبر ہے؟ احتجاج کے جو مناظر فلم بند ہو کر سامنے آ رہے ہیں وہ مزید پریشان کر رہے ہیں۔ ایک طرف ہم ایف اے ٹی ایف میں پیشیاں بھگت رہے ہیں اور نیک چلنی کے سرٹیفکیٹ پیش کر کر کے ہانپ گئے ہیں دوسری جانب وزیر داخلہ کامنصب ایک ’مجاہد اسلام بقلم خود‘ کو سونپ رکھا ہے جسے زبان و بیان پر قابو ہے نہ افتاد طبع پر۔ جو ایک ظریفانہ قسم کا مجموعہ تضادات ہے۔ کل اسی تحریک لبیک کی تحریک کا سہرا کر یہ صاحب حکومت کو آخری وارننگ دیا کرتے تھے اور آج جب خود اقتدار میں آئے ہیں تو فکر بھی بدل گئی اور اقوال زریں بھی۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہم پر کیسا قحط الرجال آن پڑا ہے۔
آخری سوال کا تعلق ہم سب سے ہے۔ یہ جو سڑک پر بپھرا ہوا ہجوم ہے، کیا ہم اس کا نفسیاتی اور سماجی مطالعہ کر سکتے ہیں؟ ہمارا ہر احتجاج متشدد کیوں ہو جاتا ہے؟ ہماری پولیس گرفتار کر لینے کے بعد تشدد کیوں کرتی ہے جب کہ قانونی طور پر وہ صرف اتنی طاقت استعمال کر سکتی ہے جتنی کسی کو گرفتار کرنے کے لیے ضروری ہو۔ پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ایک آدمی کو پکڑ کر لایا جاتا ہے تو سارے پولیس اہلکار اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں؟ یہ کیا جنون اور وحشت ہے جس نے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھ ہے؟ یہ محرومیوں کا رد عمل ہے یا تربیت کا فقدان؟
ہمارا معاشرہ آتش فشاں بن چکا ہے۔ ٹاک شوز سے لے کر چوراہے تک غصے نفرت اور وحشت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارا کیا بنے گا؟