یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
بھارت اور پاکستان کے مابین 70 برسوں کی دوستی، دشمنی، معاہدوں اور جنگوں کے تجربات کے نتیجے میں اکثر کشمیری حالیہ سیز فائر معاہدے اور ممکنہ طور پر جاری پس پردہ مذاکرات پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
دونوں میں سے کوئی ہمت اور دیانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بتا سکتا ہے کہ اگر واقعی مذاکرات ہو رہے ہیں تو اس بات چیت یا پیار بھرے خطوط میں کشمیر کو حل کرنے کا کیا منصوبہ ہے؟
یا یہ خبریں محض اندرون ملک موجود مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوششیں ہیں۔
تاشقند ہو یا شملہ معاہدہ، آگرہ اجلاس ہو یا اعتماد سازی کے اقدامات، کشمیری قوم نے ہر مرتبہ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت پر کسی حد تک اعتبار کیا تھا۔
انہیں یہ بھرم بھی تھا کہ باہمی دوستی کے نتیجے میں کشمیری قوم کو وقار سے زندہ رہنے کا موقعہ فراہم کیا جانا ان کی ترجیحات میں شامل ہوگا۔ لیکن ہر بار اس قوم کو شدید ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔
اس وقت کشمیری لیڈرشپ کہیں موجود نہیں ہے۔ سیاسی منظر نامے سے اس کو سرے سے غائب کر دیا گیا ہے اور جو اکادُکا رہنما کہیں دکھائی بھی دیتے ہیں انہیں کسی فورم یا پالیسی میں اپنی بات کہنے یا شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
انصاف کا تقاضا ہے کہ جس قوم کے مستقبل پر بات کی جا رہی ہو تو انہیں کم از کم ان حالات سے باخبر رکھا جائے۔
حالیہ سیز فائر معاہدے کے بعد لائن آف کنٹرول پر کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ سرحد کے آر پار عوام نے ذرا سی راحت محسوس کی ہے لیکن تشویش جتائی جا رہی ہے کہ وادی کشمیر کے اندر جس طرح کی انسانی حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں ان کو جنگ بندی معاہدے کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟
کیا سرحد پر فوجی جوانوں اور لائن آف کنٹرول پر عوام کو راحت پہنچانے کے علاوہ کیا اندرون وادی، کشمیر جانوں کا نقصان بھی روکا جاسکتا تھا۔
وادی میں روزانہ بھارتی افواج کے ساتھ جھڑپوں میں تقریباً تین یا چار نوجوان مارے جا رہے ہیں۔ مکانات کو بارود سے اڑایا جا رہا ہے، عورتوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، ایک طرف فیشن شو کر کے حالات کے معمول پر آنے کا ڈراما رچایا جا رہا ہے تو دوسری طرف تلاشی کی وسیع کارروائیوں میں سربازار عوام کے کپڑے اتارے جا رہے ہیں۔
سیز فائر سے پہلے اس طرح کی ذلت آمیز کارروائیوں کو روکنے کی شرط رکھی جا سکتی تھی۔ عوام میں خدشات گہرے ہوتے جا رہے ہیں کہ آیا پس پردہ یہ کسی باہمی پالیسی کا حصہ ہے جو کشمیر میں جاری سیاسی حقوق کی جدوجہد کو ختم کرنے کے لیے مرتب کی گئی ہے۔
پانچ اگست، 2019 کے بعد کشمیریوں سے زمین، زراعت، شناخت، تجارت، ملازمتیں اور ادارے چھیننے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ پوری قوم خود کو بےیارو مددگار تصور کر رہی ہے۔ نو عمر بچے اپنی زندگی کو اینکاونٹر (مقابلے) میں ہلاک ہونے کو ترجیح دینے لگے ہے۔
ان حالات پر قابو پانا قیام امن کی مربوط پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے تھا یا جارج آرویل کے مطابق ’بڑا بھائی دیکھ رہا ہے‘ کے مصداق کسی کے کہنے پر باہمی تجارت بڑھانے کے چکر میں پھر کشمیر ایک مہرے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
دونوں ملکوں کے بیچ بات چیت براہ راست ہو رہی ہو یا پس پردہ، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے لیکن شکایت اس بات پر ہے کہ کشمیر پر بات کرنے سے پہلے انسانی حقوق کی پاسداری کرانا لازمی کیوں نہیں سمجھا گیا۔
پاکستان نے کئی مرتبہ اعلان کیا کہ بھارت سے پہلی شرط کشمیر میں 5 اگست سے پہلے والی پوزیشن کو بحال کرنے کی رکھی گئی ہے۔
کیا پاکستانی قیادت کو اس بات کا ادراک ہے کہ کشمیر میں سو سے زائد ایسے قوانین لاگو کر دیئے گئے ہیں جن کا مقصد نہ صرف مسلم آبادی کا تناسب کم کرنا بلکہ مقامی باشندوں کو بےاختیار کر کے انہیں اقتصادی طور پر کمزور کرنا بھی ہے۔
کیا بھارت سے اس بات کی ضمانت لی جا رہی ہے کہ وہ ان قوانین کو واپس لے یا پاکستان بھی اس وقت جیت کے جشن کا اعلان کرے گا جب مودی ممکنہ طور پر عنقریب جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دینے کا اعلان کر دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعض مبصرین کے مطابق ’عالمی برادری کو مطمئن کرنے کا ایک نیا منصوبہ ہے جبکہ اندرونی خودمختاری کے معاملے کو گول کر دیا گیا ہے اور حق خودارادیت کی تو گنجائش ہی نہیں رکھی گئی ہے۔‘
ہمیں نہیں معلوم کہ بات چیت کا مقصد محض ایک دوسرے کو مصروف رکھنے کا عمل ہے، جو امریکی صدر جو بائیڈن کی صدارت میں کانگریس کا اعتماد بحال کرنے کی ایک سعی بھی ہوسکتا ہے۔
امریکی قیادت نے کشمیر پر کئی اجلاس طلب کر کے بھارت کی جمہوریت پر سوالات اٹھائے ہیں یا چین کے کہنے پر تنازعات کو فی الحال سرد خانے میں ڈال کر اقتصادیات پر توجہ مرکوز کرنے کی یہ ایک کوشش ہے تاکہ سی پیک منصوبہ بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل کیا جاسکے۔
جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے تو اس کے عوام کا یہ حق بنتا ہے کہ ان کو ایک بار بتا دیا جائے کہ کیا اس معاملے کو سلجھانے کا کوئی عمل جاری ہے یا دنیائے سیاست کی نئی صف بندی اور بدلتی حکمت عملی کے پیش نظر ایک قوم کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جا رہا ہے۔
بقول معروف ناول نگار جولیو کورٹ زار ’اگر آپ میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ کچھ ختم نہیں ہوا ہے بلکہ ایک نئے دور کا آغاز کرنا ہے۔‘
اگر کشمیریوں کو بھی بتایا جائے کہ ماضی کو بھلا کر نئے دور کا آغاز کرنا ہے تو وہ کسی خوش فہمی میں رہنے کی بجائے یہی سمجھیں گے کہ انہیں اپنے لیے نئی سمت تلاش کرنی ہے۔
کشمیریوں نے سب کچھ کھو کر بھی ہمت نہیں ہاری ہے اور یہ سہنے کی بھی جرت رکھتے ہیں کہ ہر لمحہ ختم ہونے کا مطلب نئی شروعات بھی ہوسکتی ہے۔ ’جو ماضی کو کنڑول کرنا جانتے ہیں مستقبل ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور جو حال سے واقف ہیں وہ ماضی کو کبھی نہیں بھولتے۔‘
بھارت کی کشمیر پالیسی سے ہر کوئی واقف ہے مگر پاکستان کو یہ بتانے کی زحمت گوارا کرنی ہوگی کہ وہ کشمیریوں کو اعتماد میں لے کر دیانت داری سے بتائیں کہ وہ کن شرائط کے تحت کشمیر پر مذاکرات کر رہا ہے۔
کیا کوئی نیا فارمولا زیر غور ہے جس کے تحت تنازعے کو وادی تک محدود کر کے لائن آف کنٹرول کو عالمی سرحد بنانا مقصود ہے یا پھر پورے خطے کی بندر بانٹ کے بعد سٹیٹس کو پر رضامندی دکھائی جا رہی ہے۔
بقول علی سردار جعفری
مقتولوں کا قحط پڑ نہ جائے
قاتل کی کہیں کمی نہیں ہے