پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ انٹیلی جنس حکام کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خفیہ مذاکرات کا انکشاف ہوا ہے۔ مذاکرات کا یہ دور رواں سال جنوری میں دبئی میں ہوا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کو دہلی سے ان خفیہ مذاکرات کا علم رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ اس بات چیت میں دونوں ملکوں کے اعلیٰ انٹیلی جنس حکام شریک تھے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات 2019 میں کشمیر میں بھارتی فوج پر ہونے والے خودکش حملے اور پاکستانی علاقوں میں بھارتی طیاروں کے داخل ہونے کے بعد سے مسلسل کشیدہ ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے 2019 میں کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا تھا جس کا مقصد بھارت کی کشمیر پر گرفت کو مزید مضبوط بنانا ہے۔
اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات میں بڑے پیمانے پر کمی کر دی تھی۔
لیکن دونوں ملکوں کی حکومتوں نے گذشتہ کئی ماہ کے دوران بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی ہے۔
اس بارے میں علم رکھنے والے دو ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوری میں متحدہ عرب امارات کی سہولت کاری سے دبئی میں ہونے والے مذاکراتی دور میں بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انیلسس ونگ (را) اور آئی ایس آئی کے اہلکار شریک تھے۔
تاہم اس حوالےسے بھارتی وزارت خارجہ اور پاکستانی فوج نے اب تک کوئی ردعمل نہیں دیا۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی عہدے دار کئی ماہ سے دوسرے ملکوں میں ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’اس حوالے سے اعلیٰ عہدے داروں کے درمیان تھائی لینڈ، دبئی اور لندن میں ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔‘
ایسا کئی بار ہوا ہے
ایسی ملاقاتیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ خاص طور پر بحرانوں کے دوران لیکن کبھی عوامی طور پر ان ملاقاتوں کا اعتراف نہیں کیا گیا۔
دہلی سے اس ملاقات کی تصدیق کرنے والے ایک فرد کا کہنا ہے کہ ’ابھی بھی بہت کچھ غلط ہو سکتا ہے۔ ایسا کئی بار ہوا ہے اس لیے کوئی عوامی طور پر اس کی بات نہیں کر رہا۔‘
’ہم اس کو کوئی نام بھی نہیں دے سکتے۔ یہ امن عمل نہیں لیکن آپ اسے دوبارہ تعلقات قائم ہونا کہہ سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دونوں ملکوں کے پاس تعلقات کی بحالی کی وجوہات بھی ہیں۔ بھارت گذشتہ سال سے چین کے ساتھ فوجی تنازعے میں الجھا ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ ایک نیا محاذ نہیں کھولنا چاہتا۔
دوسری جانب پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور وہ کشمیر کے علاقے میں طویل عرصے تک کشیدگی کو برداشت نہیں کر سکتا جبکہ امریکی انخلا کے بعد پاکستان اپنی مغربی سرحد پر حالات کو بھی مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے محاذ پر جنگ پر کتاب لکھنے والی روئٹرز کے سابق صحافی مائرہ میکڈونلڈ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اور بھارت کے لیے مذاکرات کرنا بات چیت نہ کرنے سے بہتر ہے۔ یہ زیادہ بہتر ہے کہ ایسا خفیہ طور پر کیا جائے اور اسے عوام کی نظروں سے دور رکھا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اسے کشیدگی میں بنیادی کمی کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں سمجھتی کیونکہ دونوں ملک اس وقت مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان کو افغانستان سے امریکی انخلا کا سامنا کرنا ہو گا جبکہ بھارت کو چین کے ساتھ تنازعے کا سامنا ہے۔‘
روایتی بیان بازی میں کمی
جنوری کی اس ملاقات کے بعد پاکستان اور بھارت اعلان کر چکے ہیں کہ وہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے فوجی حکام کے مطابق یہ فائر بندی ابھی تک جاری ہے۔
دونوں اطراف نے رواں سال اپنے زیر انتظام کشمیر میں انتخابات کروانے کا بھی اعلان کر رکھا ہے تاکہ دہائیوں سے خون ریزی کے شکار اس علاقے کی صورت حال کو معمول پر لایا جا سکے۔
روئٹرز سے بات کرنے والے ذرائع کے مطابق دونوں ملکوں نے روایتی بیان بازی میں کمی لانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
پاکستان اس سلسلے میں اگست 2019 میں کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی پر کیے جانے والے اعتراض کو ختم کر دے گا جبکہ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے تشدد کا الزام پاکستان پر عائد کرنے سے باز رہے گا۔
یہ تفصیلات اس سے پہلے سامنے نہیں آئی ہیں۔ بھارت کشمیر میں شورش کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتا ہے لیکن پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
روئٹرز سے بات کرنے والے ایک ذرائع کا کہنا تھا کہ ’اس حقیقت کا ادراک کیا جا رہا ہے کہ کشمیر میں حملے ہو سکتے ہیں اور اس پر بات بھی ہوئی ہے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے اور ایسے کوئی حملہ اس عمل کو ڈی ریل نہ کر سکے۔‘
روئٹرز کے ذرائع کا کہنا ہے گو کہ 74 سالہ پرانے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے ابھی تک کوئی منصوبہ سامنے نہیں آ سکا لیکن دونوں ملک بڑے پیمانے پر تعلقات کی بحالی کے لیے کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم کے معاون خصوصی رؤف حسن کا کہنا ہے کہ ’پاکستان جیو سٹریٹجک سے جیو اکنامک دور میں داخل ہو رہا ہے۔ اس کے لیے اندرونی طور پر اور اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن ایک اہم جز ہے۔‘