ہر بندہ کچھ نہ کچھ دور کی سوچتا ہے لیکن مطلوب صاحب کچھ زیادہ ہی دور کی سوچتے ہیں۔ ان کے گھر جانا ہوا تو مزدوروں کو لگے دیکھ کر حیرت ہوئی۔
پتا چلا کہ مطلوب صاحب اپنے گھر کا ڈرائنگ روم گرا رہے ہیں۔ وجہ پوچھی تو اطمینان سے بولے’کیا تم نے خبر نہیں پڑھی کہ 2025 تک جاپان فیول والی تمام گاڑیاں ختم کر کے الیکٹرک کاریں متعارف کرا رہا ہے؟‘
میں نے سر کھجایا ’ہاں سنا تو ہے لیکن اس کا ڈرائنگ روم گرانے سے کیا تعلق؟‘ مطلوب صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور زور دے کر کہا ’سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔جب جاپان سے ساری فیول کاریں ختم ہو جائیں گی تو وہ کہاں جائیں گی؟ ظاہری بات ہے ہمارے جیسے ملک امپورٹ کریں گے۔ سستی بھی ہوں گی۔‘
میں نے پہلے والی جگہ پر دوبارہ سر کھجایا: ’بجا فرمایا لیکن ڈرائنگ روم۔۔۔‘ مطلوب صاحب نے میری بات درمیان میں ہی کاٹ دی۔
’ڈرائنگ روم میں اس لیے گرا رہا ہوں تاکہ جب یہ گاڑیاں پاکستان آئیں تو کم ازکم دو گاڑیاں ضرور خرید لوں۔ تمہیں تو معلوم ہے گیراج چھوٹا ہے لیکن ڈرائنگ روم ختم ہونے کے بعد کافی جگہ بن جائے گی۔‘
میں نے ان کی دور اندیشی کی داد دی اور پوچھا کہ دس سال پہلے کا کام آج کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘ منہ بنا کر بولے: ’ایک عقل مند انسان کو مستقبل کی پلاننگ پہلے سے کر لینی چاہیے۔‘
ایسے مستقبل کی پلاننگ کرنے والے ایک سال پہلے ہی پانچ کلو بیسن خرید کر رکھ لیتے ہیں تاکہ رمضان میں جب اس کا ریٹ دس روپے بڑھے تو ان کو مہنگائی کا ’جھٹکا‘ نہ برداشت کرنا پڑے۔
آپ نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہوں گے جو مکان بنانے کے لیے پلاٹ خریدتے ہیں اور پھر شوق شوق میں چمٹا، توا، ڈوئی وغیرہ خریدنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ جب چار سال بعد مکان کی تعمیر کا آغاز کریں تو اس میں یہ ’نیا سامان‘ رکھیں حالانکہ اس وقت تک اکثر اس سامان کو زنگ لگ چکا ہوتا ہے۔
یہ لوگ موبائل بھی خریدیں تو اس کی کیسنگ، اوریجنل چارجر اور ہینڈز فری ایک الماری میں احتیاط سے رکھ دیتے ہیں اور دو نمبر ایکسسریز سے لطف اٹھاتے ہیں۔
اصل میں موبائل خریدتے ہی ان کے ذہن میں اسے فروخت کرنے کا پلان پہلے سے ترتیب پانے لگتا ہے لہذا یہ سمجھتے ہیں کہ اوریجنل چیزوں کے ساتھ جب بھی موبائل بیچیں گے بڑی اچھی قیمت ملے گی۔
یہ کبھی کسی اوریجنل چیز کا لطف نہیں اٹھاتے۔ موٹر سائیکل خرید لیں تو اس کی اوریجنل ٹینکی اتروا کر گھر میں رکھ لیتے ہیں اور دو ٹکے کی نقلی ٹینکی سجائے پھرتے ہیں۔
ان کو ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کی اوریجنل چیز خراب نہ ہو جائے۔ ان کی پوری زندگی پورے پیسے ادا کرنے کے باوجود ’کاپی‘ استعمال کرتے ہوئے گذر جاتی ہے۔ اوریجنل چیز ان کے لمس کے لیے ترستی رہ جاتی ہے۔
یہ ہمیشہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اس مستقبل کی جو ہمیشہ کی طرح ان کا ماضی بن کر رہ جاتا ہے۔ مارکیٹ میں نئی سے نئی چیز آتی جاتی ہے اور ان کی اوریجنل چیز پڑی پڑی بےکار ہو جاتی ہے۔
یہ نیا سوٹ سلوا لیں تو اس ڈر سے نہیں پہنتے کہ کہیں خراب نہ ہو جائے۔۔۔ اور پھر ایک وقت آتا ہے جب یہ سوٹ نکالتے ہیں اور پتا چلتا ہے کہ فیشن بدل چکا ہے۔
یہ نئے صوفوں خریدتے ہیں تاکہ ڈرائنگ روم کی رونق بڑھ سکے۔۔۔لیکن پھر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس پر بیہودہ سے ڈیزائن والا غلاف چڑھا دیتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ گردوغبار سے بچانے کے لیے ایسا کیا ہے۔
لیکن ساری زندگی کسی آنے جانے والے کو پتا ہی نہیں چلتا کہ غلاف کے نیچے کتنا خوبصورت صوفہ ہے۔
چیز خریدنے اور استعمال کرنے کی خوشی دو مختلف چیزیں ہیں۔ بہت سے لوگ چیزیں خریدنے میں شیر ہوتے ہیں لیکن استعمال کا حوصلہ نہیں کر پاتے۔
ان کی مہنگی گھڑیاں پڑے پڑے بند ہو جاتی ہیں لیکن یہ ہمیشہ تین سو روپے والی گھڑی باندھے پھرتے ہیں۔ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہوتا ہے لیکن یہ ہر نئی چیز کو استعمال کرنے کے لیے کسی اچھے وقت کے انتظار میں رہتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے اِن لوگوں کی زندگی کا حسن کسی نے باندھ دیا ہو۔ انہیں جتنا مرضی قیمتی گفٹ دے دیں‘ یہ اسی نفاست سے دراز میں سنبھال کر رکھ دیتے ہیں۔ اچھی چیزیں ان کے نصیب میں ہی نہیں ہوتیں۔ بس مستقبل کی منصوبہ بندی ہوتی ہے جو ہمیشہ ایک نئے مستقبل کو جنم دیتی رہتی ہے۔
ہر کام کی چیز ان کی دسترس میں ہوتے ہوئے بھی استعمال میں نہیں آتی۔ انہیں کہیں سے امپورٹڈ شیمپو کا تحفہ مل جائے تو ایک سال بعد یہ شیمپو جوں کا توں پڑے پڑے زہر بن جاتا ہے لیکن کبھی شیشی سے باہر نہیں آ پاتا۔
یہ کوئی اچھا کمبل خرید لیں تو پیٹی میں رکھ دیتے ہیں کہ جب کوئی مہمان آئے گا تو اسے پیش کریں گے اور خود پھر سے ’تروپے‘ لگا کمبل اوڑھ لیتے ہیں۔
یہ نیا جوتا خرید لیں توکسی شادی کے موقع کا انتظار کرتے ہیں‘ نئی شرٹ خرید لیں تو کسی انتہائی اہم تقریب کے لیے سنبھال رکھتے ہیں۔ نیا پین خرید لیں تو دراز میں رکھ دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ وہ بدقسمت لوگ ہوتے ہیں جو ہر خوبصورت چیز کے دیوانے ہوتے ہیں لیکن جونہی ان کے پاس آتی ہے اس پر بدصورتی کی ملمع کاری کر کے سمجھتے ہیں کہ اب یہ محفوظ ہوگئی ہے۔
ہم لوگ نئی چیز کے استعمال سے ڈرتے کیوں ہیں؟ جب ایک برانڈ نیو موبائل لیا ہے تو اُسے اصل حالت میں کیوں نہ استعمال کیا جائے؟ نیا ڈنر سیٹ خریدا ہے تو کھانا پرانے میں کیوں کھایا جائے؟ نئے کپڑے سلوائے ہیں تو انہیں عام حالات میں بھی پہننے میں کیا مضائقہ ہے؟گھر میں ڈیڑھ لٹر والے کولڈ ڈرنک کی خالی بوتلوں کے انبار لگتے جا رہے ہیں لیکن پھینکنے کا حوصلہ نہیں پڑ رہا۔
باتھ روم میں نیا شیونگ ریزر موجود ہے تو پرانے 15 ریزرز کا انبار کیوں لگا رکھا ہے؟ پانچ سو روپے والا لائٹر خرید ہی لیا ہے تو اسے استعمال کیوں نہیں کرتے؟ نئی بیڈشیٹ کیوں سوٹ کیس میں پڑی پڑی پرانی ہو جاتی ہے؟ جہیز میں ملی نئی رضائیاں کیوں 20 سال سے استعمال میں نہیں آئیں؟ باہر سے آیا ہوا لوشن کیوں پڑا پڑا ایکسپائر ہوگیا ہے؟
دل چاہیے نئی چیز استعمال کرنے کے لیے پہاڑ جتنا دل۔ جو لوگ اس جھنجٹ سے نکل جاتے ہیں ان کی زندگیوں میں عجیب طرح کی طمانیت آ جاتی ہے۔
یہ شرٹ خریدیں تو اگلے دن پورے اہتمام سے پہن لیتے ہیں۔ یہ ہر اوریجنل چیز کو اُس کی اوریجنل شکل میں استعمال کرتے ہیں اور ہم جیسے دیکھنے والوں کو لگتاہے جیسے یہ بہت امیر ہیں حالانکہ یہ سب چیزیں ہمارے پاس بھی ہوتی ہیں لیکن ہماری ازلی بزدلی ہمیں ان کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتی۔
ہم ساری زندگی اچھے لباس کے میلے ہونے سے ڈرتے ہیں اور پھر ایک دن دودھ کی طرح اجلا سستا لباس پہن کر مٹی میں اتر جاتے ہیں۔