سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ انہیں عہدے سے ہٹانے کی خواہش کی وجہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ ہے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر نظرثانی کیس کی سماعت جمعرات کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے کی۔
سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ہمراہ پیش ہوئے اور دلائل کا آغاز ایک شعر پڑھ کر کیا:
غم عشق لے کر جائیں کہاں
آنسوؤں کی یہاں کوئی قیمت نہیں
قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے بعد مجھ پر قیامت برپا کی گئی، مجھے عہدے سے ہٹانے کی خواہش کی وجہ یہ ہے کہ میں نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میرے عہدے پر رہنے یا نہ رہنے سے فرق مجھے نہیں ملک کو پڑے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملک کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے، پاکستان کو باہر سے کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔‘
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’مرحوم خادم حسین رضوی نے بھی فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر نہیں کی لیکن خادم رضوی کے علاوہ باقی سب نے فیض آباد دھرنا فیصلہ چیلنج کیا۔‘
’تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے بھی فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کی۔ تحریک انصاف کی نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ میں جج بننے کا اہل ہی نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں واقعی جج بننے کا اہل نہیں کیوں کہ میں بنیادی حقوق کی بات کرتا ہوں۔‘
جسٹس عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’میری اہلیہ کیس میں فریق نہیں تھیں پھر بھی ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔ اپنی اہلیہ بیٹی اور بیٹے سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ میری وجہ سے اہلیہ اور بچوں کے خلاف فیصلہ آیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آج تک ایک شخص عدالت میں موجود نہیں ہے۔ فروغ نسیم کے لیے عدالت کا احترام نہیں وزرات ضروری ہے۔ فروغ نسیم نے میری اہلیہ اور مجھ پر الزامات عائد کیے، ان کو شاید اسلامی تعلیمات کا بھی علم نہیں ہے۔ نبی کریم بھی اپنی اہلیہ کے لیے کام کرتے تھے۔‘
جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’کہنے کو ہم اسلامی جہموریہ پاکستان دراصل منافقین کی قوم ہیں۔‘
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’کیس ایف بی آر کو بھیجوانے کا فیصلہ عدالتی اختیارات سے تجاوز تھا۔ آرٹیکل 184/3 بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہے۔ میری بیٹی اور بیٹے کو ایف بی آر نوٹس کا حکم بنیادی حقوق کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔‘
بقول جسٹس عیسیٰ: ’سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان نے بدنیتی پر مبنی کارروائی کی۔ مجھے پاگل شخص قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ عمران خان کی فیملی کے بارے میں بات نہیں ہو سکتی۔ عمران خان کرکٹر تھے تو ان کا مداح تھا آٹوگراف بھی لیا تھا، عمران خان بھی ایک انسان ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے انصاف کا قتل عام کیا ہے۔ ’صدر نے میرے تین خطوط کا جواب تک دینا گوارا نہیں کیا۔ مجھے ریفرنس کی کاپی نہیں ملی لیکن میڈیا پر بینڈ باجا شروع ہوگیا۔ میرے اور اہلخانہ کے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کی گئی۔‘
’سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے میرا موقف سنے بغیر میری پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ جسٹس عظمت سعید میرے دوست تھے لیکن ان کے فیصلے پر دکھ ہوا ہے۔ وہ آج حکومت کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔‘
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’جن ججز کے آپ نام لے رہے ہیں وہ ریٹائر ہو چکے ہیں، بار بار ججز پر الزامات نہ لگائیں۔‘
جسٹس مقبول باقر نے بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اپنے کیس پر دلائل دیں آپ کی مہربانی ہوگی۔‘ جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’کیا فائز عیسٰی اس عدالت کا جج نہیں ہے؟ کیا عظمت سعید اور آصف سعید کھوسہ کے نام بہت مقدس ہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ’شہزاد اکبر کو جیل میں ہونا چاہیے لیکن وہ اہم عہدے پر ہیں۔ فروغ نسیم کو حلف کی خلاف ورزی پر برطرف کیا جانا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب اختر کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ جسٹس منیب اختر نے قاضی فائز عیسیٰ سے کہا کہ ’جو بات میں نے کی نہیں وہ مجھ سے منسوب مت کریں۔ میں نے صرف ایک سوال پوچھا ہے۔‘
جسٹس منظور ملک نے بھی جسٹس عیسیٰ کو مخاطب کرکے کہ ’جج صاحب آپ پارٹی نہ بنیں بلکہ ایک وکیل کی طرح اپنے دلائل دیں۔‘
جس پر قاضی عیسیٰ نے جواب دیا کہ ’میں وکیل کے طور پر دلائل نہیں دے سکتا، میں ذاتی حیثیت میں دلائل دے رہا ہوں۔‘ بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر سے معذرت کر لی۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے قاضی عیسیٰ سے کہا کہ ’آپ عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں ہیں ان کی نشاندہی کریں۔ ہمارا کام لوگوں کو جیل بھجنا نہیں فیصلے کرنا ہے۔ ہم کیس چلانا چاہتے ہیں آپ کہانیاں نہ سنائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل کے بارے میں آپ کے وکیل نے دلائل نہیں دیے تھے۔‘ اس پر قاضی عیسیٰ نے جواب دیا کہ ’میری درخواست کا ایک حصہ ریفرنس اور دوسرا جوڈیشل کونسل کے متعلق تھا۔‘
بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کے وکیل نے جوڈیشل کونسل والے حصے پر دلائل نہیں دیے تھے، تو سپریم جوڈیشل کونسل والے حصے پر نظرثانی میں دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟‘
جس پر قاضی عیسیٰ نے کہا کہ ’عدالت نے ریفرنس کو اپنے فیصلے میں زندہ رکھا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف مجھے سنگین تحفظات ہیں۔ میرا کیس دوبارہ جوڈیشل کونسل بھجوانے پر اس حوالے سے دلائل دوں گا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ایف بی آر نے آج تک مجھے نوٹس نہیں بھیجا۔ میرے بچے اور اہلیہ میرے زیر کفالت نہیں ہیں۔ لندن جائیدادیں خریدتے وقت بھی اہلیہ اور بچے زیر کفالت نہیں تھے۔ عمران خان کی طرح میری اہلیہ نے جائیداد نہیں چھپائی۔ نیازی سروسز والا کیس ایف بی آر کو نہیں بھیجا گیا، میرے کیس میں عدالت نے تفریق سے کام لیا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’لندن جائیدادوں کی کل مالیت ایف سکس کے ایک پلاٹ کے برابر بھی نہیں ہے، فروغ نسیم روسٹرم پر آکر جھوٹ بولتے رہے۔‘
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’شہزاد اکبر تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے ممبر ہے۔ انہوں نے اپنے خلاف کسی الزام کی تردید نہیں کی، سمجھ نہیں آتا جمہوریت میں رہ رہے ہیں یا ڈکٹیٹرشپ میں۔‘
فل کورٹ میں شامل ججز نے کہا کہ ’عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں ہیں ان کی نشاندہی کریں۔ اپنا رویہ وکیل والا رکھیں فریق نہ بنیں۔ جذباتی ہونے کی بجائے اپنے کیس پر توجہ دیں۔‘
جس کے بعد عدالت نے مزید دلائل کے لیے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔