سیاسی ’مصلحتیں‘ اور ’ناقص‘ حکمت عملی بدامنی کی بڑی وجہ: تجزیہ کار

تحریک لبیک پاکستان کے حالیہ احتجاج کے تناظر میں ہونے والے نقصان پر تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کہتے ہیں کہ ’حکومتوں کو یہ سمت متعین کرنی چاہیے کہ جو بھی ہوجائے کسی کا غیر آئینی وغیر قانونی مطالبہ تسلیم نہیں ہوگا۔‘

تحریک لبیک پاکستان کے  پرتشدد احتجاج کے دوران ملک بھر میں مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش میں تین پولیس اہلکار جان سے گئے جبکہ 400 سے زائد زخمی ہوئے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے حالیہ احتجاج اور دھرنوں سے عوام کو تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہی ہے لیکن سب سے زیادہ نقصان پولیس کو اٹھانا پڑا۔

اب تک اس پرتشدد احتجاج کے دوران ملک بھر میں مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش میں تین پولیس اہلکار جان سے گئے جبکہ 400 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

چار پولیس وینز بھی نظر آتش کر دی گئیں اور وائرل ویڈیوز میں سکیورٹی اہلکاروں کے تضحیک آمیز مناظر بھی لوگوں نے دیکھے۔

دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان کے کارکن اور حامی بھی ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے یا گرفتار کر لیے جبکہ جماعت کی جانب سے 18 کے قریب ہلاکتوں کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

تاہم اس مرتبہ حکومت نے کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کیے بغیر تحریک لبیک کو پیچھے ہٹانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس پر پابندی لگادی۔

لیکن سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں اس طرح مذہبی گروپوں کی جانب سے حکومتوں کو کب تک ’بلیک میل‘ کرکے امن و امان خراب کیا جاتا رہے گا؟

تجزیہ کاروں کے مطابق جب تک سیاسی مصلحتوں کے تحت مذہبی گروپوں سے معاہدے اور غیر قانونی وغیر آئینی مطالبات پر دو ٹوک موقف کی بجائے اوپری اوپری بیانات کی پالیسی اپنائی جائے گی حالات مستقل بہتر نہیں ہو سکتے۔

حکومتوں کو ’بلیک میل‘ ہونے کے بعد ایکشن کا خیال کیوں آتا ہے؟

فرانسیسی صدر کی جانب سے توہین مذہب سے متعلق متنازعہ بیان پر دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان نے بھی سفارتی طور پر مذمت کی تھی۔ وزیر اعظم نے بھی متعدد بار اسلامو فوبیا سے متعلق عالمی فورمز پر آواز اٹھائی۔

اسی بیان کے خلاف گذشتہ برس نومبر میں تحریک لبیک پاکستان نے فرانسیسی سفارتکار کو ملک سے نکالنے کے لیے دھرنا دے دیا، جسے ختم کرانے کے لیے حکومت نے ٹی ایل پی سے معاہدہ کیا تھا کہ قومی اسمبلی سے قرارداد پاس کرانے کے بعد 20 اپریل تک ان کا مطالبہ مان لیا جائے گا۔

تاہم یہ معاملات طے نہ ہوئے اور حکومت نے پیر (12 اپریل) کو لاہور سے ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی کو حراست میں لے لیا، جس سے پورے ملک میں ٹی ایل پی کی جانب سے احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

امن وامان خراب ہونے کے باوجود حکومت نے اس جماعت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا اور دھرنے بھی طاقت کے استعمال سے ختم کرائے گئے۔

تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ پہلی بار نہیں کہ حکومت نے کئی دن بدامنی پھیلانے والے پریشر گروپ کے بلاجواز مطالبات ماننے کا معاہدہ کرکے آپریشن کا آپشن اپنایا بلکہ اس سے پہلی حکومتیں بھی سیاسی مصلحتوں کے تحت پہلے دھرنے دینے والوں سے معاہدے اور پھر آپریشن کا راستہ اپناتی رہی ہیں۔

اعجاز اعوان کے مطابق: ’جب کوئی بھی مذہبی جماعت کوئی غیر آئینی مطالبہ کرتی ہے اور حکومت ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت مذاکرات اور معاہدہ کا راستہ اپناتی ہے تو وہ اپنے آپ کو ریاست سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اگر مختلف ادوار میں پانچ چھ معاہدوں کو دیکھیں تو یہ معاملہ بھی مختلف نظر نہیں آئے گا۔ ’بے نظیر دور میں تحریک نفاذ شریعہ محمدی نے مالاکنڈ ڈویژن میں داخلی راستے دھرنوں سے بند کیے تھے اور پیپلز پارٹی کے ایم پی اے کو اٹھا کر بعد میں قتل کیا تھا تب بھی اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سیاسی مصلحت کے تحت وہاں گئیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’پھر نواز شریف کا دور آیا تو وہ بھی وہاں گئے اور احتجاج ختم کرانے کے لیے معاہدہ کر لیا کہ ہم آپ کو نظام عدل دیں گے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم آپ کو ایک ریاست میں دو قانون بنانے یا علیحدہ نظام رائج کرنے کی اجازت نہین دے سکتے۔‘

اعجاز اعوان کے مطابق: ’جب سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن ہوا اور الیکشن کے بعد اے این پی حکومت میں آئی تو انہوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں بل پاس کیا کہ ان آٹھ اضلاع میں نظام عدل یا شرعی نظام نافذ کر دیا جائے، اس سے ان کے حوصلے بلند ہوئے کہ حکومت تو ہماری ڈیمانڈ ماننے پر مجبور ہوگئی ہے۔‘

’جب یہ قانون قومی اسمبلی سے بھی پاس ہو گیا تو انہوں نے مزید ڈیمانڈ کرنا شروع کر دیں کہ یہاں سے فوج کو نکالا جائے، ہم انتظام خود سنبھالیں گے پھر ان کے خلاف ایکشن کا خیال آیا تو مجھے وہاں بھیجا گیا، ہم نے ایکشن کر کے علاقہ کلیئر کرایا اور ڈنڈے کے زور پر ریاست کی رٹ قائم کرنا پڑی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح جب طاہر القادری دھرنا دینے اسلام آباد آئے اور ان کا مطالبہ انقلاب تھا، تب بھی چوہدری شجاعت اور قمر الزمان قائرہ نے جا کر ان سے مذاکرات کیے، تب بھی معاہدہ کر لیا گیا جو پورا نہیں ہو سکتا تھا۔

اعجاز اعوان نے مزید کہا: ’اس حکومت نے بھی وہی کام کیا، قومی اسمبلی سے بل پاس کرا کے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا تحریری معاہدہ کرلیا اور خارجہ پالیسی کے تحت اب یہ ڈکٹیٹ کرنے لگ گئے کہ بل ان کی مرضی سے تیار کیا جائے، پھر سعد رضوی کو پکڑ لیا گیا، اتنا عرصہ گزرنے کے بعد نقصان اٹھا کر بھی طاقت سے ہی انہیں قابو کرنا پڑا تو پہلے دن ہی غیر قانونی مطالبہ کیوں مانا گیا؟‘

کیا ناقص حکمت عملی کے باعث زیادہ نقصان ہوا؟

وزارت داخلہ کی ہدایت پر سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد ٹی ایل پی کے ملک بھر میں احتجاج کے نتیجے میں وزارت داخلہ کے مطابق کم ازکم تین پولیس اہلکار جان سے گئے جبکہ 489 زخمی ہوئے۔ احتجاج کے باعث چھ مریض راستے میں دم توڑ گئے، دو راہ گیر ہلاک اور 113 زخمی ہوئے جبکہ 61 سرکاری اور نجی گاڑیوں بشمول ایمبولینسز کو نقصان پہنچا۔

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی کے لیے موثر حکمت عملی کے حتمی فیصلے میں تاخیر کیوں ہوئی؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق آئی جی پنجاب چوہدری محمد یعقوب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیاسی مصلحتوں کے باعث سکیورٹی فورس خاص طور پر پولیس کو بھی آخری وقت تک کارروائی کے حتمی احکامات نہیں دیے جاتے، جس سے بعد میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

سابق آئی جی کے مطابق ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی میں بھی ایسا ہی ہوا کہ جب سعد رضوی کو گرفتار کر لیا گیا اور ملک بھر میں ٹی ایل پی کارکن سڑکوں پر آگئے اور توڑ ہھوڑ شروع کر دی تب پولیس کو حکم دیا گیا کہ اب حالات پر قابو پائیں۔

’اس صورتحال میں پولیس پہلے سے تیار ہی نہیں تھی کہ بھرپور ایکشن کرنا ہے، جب کارروئی کی تو مشتعل مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر بھی دھاوا بول دیا اور حالات زیادہ کشیدہ ہو گئے۔‘

انہوں نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ پولیس اہلکار امن وامان قائم کرنے کے لیے پتھراؤ اور تشدد برداشت کرتے رہے لیکن سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیانات میں بھی ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔

اعجاز اعوان سمجھتے ہیں کہ یہ مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک ریاست اپنے اداروں کی مدد سے ایسے عناصر کے خلاف پہلے سے ہی حکمت عملی تیار نہیں کرتی۔ اداروں کے ذریعے اس طرح کے گروہوں کو پھلنے پھولنے سے پہلے قابو کرلینا چاہیے تاکہ بعد میں حالات خراب نہ کرسکیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’دوسرا یہ کہ حکومتوں کو یہ سمت متعین کرنی چاہیے کہ جو بھی ہوجائے کسی کا غیر آئینی وغیر قانونی مطالبہ تسلیم نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی ایسا معاہدہ کیا جائے گا جو پورا نہ ہوسکتا ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان