عرب دنیا میں جس ’بہار‘ کا بہت چرچا رہا، خوش قسمتی سے اردن اس کے اثرات سے محفوظ رہا ’بہار عرب‘ کے دنوں میں شاہ عبداللہ دوم کی زیرک قیادت نے جس طرح خزاں رنگ بہار کے سراب سے خود کو بچایا، یہ انہی کا خاصہ ہے۔
اردن کے شاہ نے علاقائی افراتفری، بالخصوص ہمسایہ ملکوں شام اور عراق میں جاری بدامنی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
دوسری جانب اردن کو غیرمستحکم کرنے کی ناکام داعشی کوششوں کے بعد شام سے آنے والے بڑی تعداد میں پناہ گزین عمان کی کمزور اقتصادی صورت حال کے لیے اضافی بوجھ بننا شروع ہوئے تو شاہ عبداللہ دوم کی کوششوں سے ملک اس آزمائش سے نکلنے میں بھی کامیاب رہا۔
لیکن عالمی سیاسی بساط سجانے والے حلقوں کو اردن کی یہ ثابت قدمی ایک آنکھ نہ بھائی۔ گذشتہ ہفتے ناکام بغاوت کے ذریعے اردن کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔ حکومت وقت کے مطابق معاملے کی تحقیقات جاری ہیں جبکہ شاہی خاندان کے اہم فرد شہزادہ حمزہ کو اس میں ملوث نہ ہونے کی کلین چٹ مل چکی ہے۔
تاہم حالیہ ’بغاوت‘ کے ڈانڈے جن بیرونی ہاتھوں کی جانب بڑھتے دکھائی رہے ہیں ان سے اردن کے عوام اور حکومت چوکنا ضرور ہو گئی ہے۔ بغاوت کی ناکام کوشش کے حوالے سے بدنام زمانہ صہیونی ایجنسی ’موساد‘ سے وابستہ اسرائیلی شہری کے کردار کی تحقیقات کا نتیجہ عوام کے سامنے ضرور آنا چاہیے۔
کہتے ہیں کہ مشکل اکیلے نہیں آتی۔ بہار عرب، داعش اور پناہ گزینوں کے بحران کے بعد عالمی وبا ’کووڈ۔19‘ نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو اردن اس سے مستثنیٰ کیسے رہ سکتا تھا؟ گرتی ہوئی معاشی صورت حال کے تناظر میں غریب اردنی عوام کا وائرس سے نمٹنے کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ خطے کے اس اہم ملک کو محلاتی سازشوں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اردن کی ناکام بغاوت کا فائدہ کسے ہونا تھا؟ ملکی سالمیت، امن اور معاشرتی ہم آہنگی میں طلاطم سے کون سے حلقے فائدہ اٹھا سکتے تھے؟ اس کے ساتھ ان سوالوں کا جواب بھی تلاش کیا جانا ضروری ہے کہ اردن کے عدم استحکام کا سب سے زیادہ گزند کسے پہنچنا تھا؟
سیاسی، سکیورٹی، معاشرتی اور معاشی حوالوں سے عدم استحکام کے منفی اثرات سے کن حلقوں نے زیادہ متاثر ہونا تھا۔
ان پیچیدہ سوالوں کا جواب تلاش کیے بغیر عرب خطے کی سلامتی کا ادراک ممکن نہیں۔ انہیں سوالوں کے جواب عرب عوام کو اپنے حقیقی دشمنوں کا چہرہ پہچاننے میں مدد دیں گے اور انہیں معلوم ہو سکے کہ ان کا اتحادی کون ہے؟
مفروضوں کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے کی کوشش سے غیرجانبدار تجزیہ ممکن نہیں۔ اس کے لیے عرب خطے کی موجودہ سیاسی صورت حال کا بےلاگ جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
معروضی سیاسی حقائق تسلیم کرنے کے بعد ہی عرب قومی سلامتی اور اردن جیسے معتدل مزاج عرب مملکت کی سکیورٹی اور استحکام کو ہدف بنانے والوں کے عزائم بہتر طور پر جانے جا سکتے ہیں۔
عرب خطے کی گذشتہ ایک دہائی سے پہلے کی سیاسی صورت حال کا جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ خطے کی سلامتی بہتر، مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر استوار رہی۔ عرب حکومتوں نے معمولی نوعیت کے گروہی مفادات کے مقابلے میں خطے کے اجتماعی مفاد کو مقدم جانا جس نے ان کے درمیان تعاون کو یقینی طور پر مضبوط کیا۔
اس کی عملی مثال اکتوبر 1973 کو ہونے والی مصری جنگ میں دیکھنے کو ملی جب تمام عربوں نے نتائج سے بے پروا ہو کر اپنا وزن قاہرہ کے پلڑے میں ڈالا۔
عرب اتحاد کے اس قابل فخر مظاہرے کے علاوہ گذشتہ دس برسوں کے دوران ان اقدار میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ نظریات میں تبدیلی اور بین الاقوامی سیاست میں کوتاہ بینی کی وجہ سے عربوں کی قومی سلامتی میں افراتفری کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
اسی وجہ سے عربوں کے درمیان تقسیم، صلاحیتوں اور وسائل کا ضیاع عمومی کلچر بن چکا ہے۔
علاقائی تنازعات کی نشانیاں اس وقت ظاہر ہونا شروع ہوئیں جب عراق میں برسراقتدار بعث پارٹی نے 1990 میں خلیجی ملک کویت پر حملہ کیا۔
اجتماعی طور پر عربوں نے اس حملے سے پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا جسے دیکھ کر عربوں کے علاقائی اور بین الاقوامی دشمنوں نے خوشی سے بغلیں بجائیں اور بعد میں صورت حال کا فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگانے لگے۔
عراق کی بعث پارٹی کے کویت اور اس کے عوام کے خلاف مجرمانہ اقدام نے عرب قومی سکیورٹی اور سالمیت کا بت پاش پاش کر دیا۔ اس کے بعد 2003 میں عراق پر امریکی حملے نے اہم عرب دارالحکومت [بغداد] کی زمام کار ایران کی سخت گیر حکومت کے حوالے کر دی۔
عراق میں ایرانیوں کی موجودگی سے تہران میں ولایت فقیہ کے پرچارکوں کو بہت بڑا سہارا ملا جس کے عرب قومی سکیورٹی پر دور رس نتائج مرتب ہوئے۔۔۔۔اس کے بعد سود وزیاں کے ایک لامتناہی سلسلے کو ’بہار عرب‘ نے مہمیز دی، جو تادم تحریر مختلف محاذوں پر اپنی حشر سامانیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
عمان میں ناکام بغاوت اسی سلسلے کا تازہ ترین وار ہے جس نے اردنی کے شہریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا حالانکہ اردنی عوام پے در پے حکومتی ناکامیوں پر خاموشی میں ہی عافیت سمجھ رہے تھے۔
لیکن اب خدشہ ہے کہ عمان کے استحکام اور سالمیت کے خلاف سرگرم بیرونی عناصر اندرون ملک پائی جانے والے بےچینی کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے بطور ڈھال استعمال کر سکتے ہیں۔
علاقائی استحکام میں اردن کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ عمان کو درپیش چیلنجز کے باوجود ملک کی سیاسی زندگی کو بحال کرنے کی نئی کوششیں دکھائی دے رہی ہیں۔
شاہ عبداللہ کے مطابق وہ ’مملکت میں سیاسی زندگی کو ضابطے میں لانے والے قوانین کا ازسر نو جائزہ لے رہے ہیں۔‘ ان میں انتخابات اور سیاسی جماعتوں سے متعلق قوانین بھی شامل ہیں۔ ان قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ اردنی عوام ایک عرصے سے کرتے چلے آئے ہیں۔
موسم گرما کے دوران مقامی حکومتوں کے انتخاب سے پہلے نئے انتخابی قوانین متعارف کرائے جانے سے عوام کی اس عمل میں وسیع البنیاد شرکت کی راہ ہموار ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔
ایسے میں اگر حکومت انتخابی قوانین میں فوری طور پر درکار ترامیم کے حوالے سے عوامی مباحثے کا آغاز کرا دے تو اس سے زیادہ مناسب وقت کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
حالیہ ناکام بغاوت کے بعد دنیا بھر سے اردن کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اردن، علاقائی سلامتی کا اہم حصہ ہے۔
اردن کو اپنے اتحادیوں کی حمایت درکار ہے کیونکہ ملک اس وقت مشکل معاشی حالات سے گزر رہا ہے جس نے صحت کے مسائل کو گھمبیر بنا رکھا ہے۔
ایسے میں اردن کی حکومت اور عوام سے حقیقی دوستی کا تقاضہ ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح پر قابو پانے میں مدد دی جائے۔
اردن کی معیشت کو ایسے منصوبوں میں غیر ملکی سرمایہ کے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے جس سے ملازمت کے مواقع پیدا ہوں تاکہ ملکی معیشت کو سہارا مل سکے۔
سعودی عرب سمیت خلیج کے متعدد ملکوں نے مختلف سرمایہ کاری منصوبوں کے ذریعے اردن کی مدد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
اردن کی حکومت کو ان اعلانات کو عملی اقدامات کی شکل دینے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاری میں دلچسپی کے منصوبوں کے بلیو پرنٹ تیار کرنے چاہیں۔
غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے سیاحت، کان کنی، قابل تجدید توانائی، طبی سیاحت اور سروسز کے شعبے ہمیشہ مرغوب رہے ہیں، اس لیے عمان کو ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی شرائط کو نرم کرنا چاہیے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کار ان شعبوں میں اپنا سرمایہ محفوظ سمجھیں۔
مملکت میں طویل المیعاد استحکام کی بنیاد پائیدار معیشت کے بغیر ممکن نہیں جس سے ملک کے اندر ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی جن سے غربت پر قابو پایا جا سکے گا اور اس کے معاشرے پر منفی تاثر کی بیخ کنی ہو سکے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک میں پائیدار سیاسی اصلاحات کا عمل بھی شروع کیا جانا چاہیے تاکہ عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا احساس پیدا ہو۔ یہ صورت حال نام نہاد غیر ملکی اپوزیشن کا منہ بند کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اردن کی ریاست میں ہاشمیوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ان کی حکومت میں گذشتہ دنوں آمد کی صد سالہ تقریبات کا آغاز ہوا ہے۔ ناکام بغاوت کے بعد شاہی خاندان کے اندرونی معاملات کو نہایت اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔
اردنی قیادت کو اپنے داخلی قلعہ کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ کسی کو باہر سے اس میں نقب لگانے کی ہمت نہ ہو سکے۔
اردن کے دشمن بظاہر دکھائی دینے والی تاریک صورت حال میں ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ اسرائیلی ایوان اقتدار پر دائیں بازو کی انتہا پسند سوچ کی حامل سیاسی قیادت کا کنٹرول مضبوط ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس قیادت نے اردن سے متعلق اپنے عزائم کو کھلے عام فخریہ بیان کیا ہے۔
قضیہ فلسطین کے حل کے ضمن میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام نہاد منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں اردن کا حق پر منی موقف سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
شاہ عبداللہ دوم کی قیادت کو غیر مستحکم کیے بغیر مغربی کنارے میں مقیم فلسطینیوں کی اردن منتقلی کے منصوبے پر عمل درآمد نہیں کرایا جا سکتا تاکہ یہودی آبادکار فلسطین کی سرزمین پر کھل کھیل سکیں۔
اردن کی شاہی قیادت اور عوام نے اپنی صفوں میں اتحاد سے یہ امریکی۔صہیونی منصوبہ ناکام بنایا ہے۔