پاکستان میں مقیم فرانسیسی شہریوں نے ملک چھوڑنے کی اپنے سفارت خانے کی ہدایت پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔
پاکستان میں تعینات فرانس کے سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ کرنے والی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے پرتشدد احتجاج کے بعد فرانسیسی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو پاکستان چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔
تاہم ایسا دکھائی دیتا ہے کہ زیادہ تر فرانسیسیوں نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تین سطروں پر مشتمل ایک مختصر ای میل میں فرانسیسی سفارت خانے نے جمعرات کو اپنے شہریوں اور کمپنیوں سے کہا تھا کہ وہ ’سنگین خطرات‘ کی وجہ سے پاکستان سے چلے جائیں۔
ای میل کے ساتھ ’فوری‘ کا لفظ لکھا تھا۔ یہ ای میل، جس میں خطرات کی نوعیت کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی، پاکستان میں مقیم چند سو افراد پر مشتمل فرانسیسی برادری کے لیے پریشانی اور اضطراب کا سبب بن گئی۔
تین سال سے اسلام آباد کے امریکی سکول میں فرانسیسی زبان پڑھانے والے ژاں مشیل قارنتوتی کو ان کے ایک طالب علم نے سفارت خانے کی ایڈوائزری کے بارے میں بتایا۔
فرانسیسی استاد نے اے ایف پی کو بتایا: ’ابتدا میں جو خوف اور ڈر میں نے محسوس کیا اسے آپ سے نہیں چھپاؤں گا۔ یہ میرا پہلا غیرملک نہیں۔
’میں پاکستان آنے سے پہلے کئی ملکوں میں رہ چکا ہوں لیکن واقعی مجھے صدمہ پہنچا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ ایسے حالات سے گزرنا پڑے گا۔‘
قارنتوتی نے کہا کہ پہلے انہوں نے سوچا کہ سامان باندھیں اور چلے جائیں لیکن ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد عقل جذبات پر غالب آ گئی۔
’میرے ارد گرد موجود پاکستانی شہریوں نے مجھے یہیں رہنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا وہ میری حفاظت کریں گے۔ لوگوں کی جانب سے اظہار یکجہتی دیکھنا بڑا جذباتی تجربہ تھا۔
’انہوں نے مجھ سے کہا ہم ہیں نا۔آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم آپ کا دفاع کریں گے۔‘
اے ایف پی کے رابطہ کرنے پر بہت سے فرانسیسی شہریوں نے اپنے سفارت خانے کے پیغام کے وقت پر سوال اٹھایا کیونکہ حکومت پاکستان حال ہی میں ٹی ایل پی پر پابندی لگا چکی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ صورت حال پر قابو پا لیا گیا ہے۔
قرنتوتی کا کہنا تھا ’ہمیں الفاظ کے غلط انتخاب سے فرانسیسی برادری کو خوف زدہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں قدرے حیرت ہے کہ فرانس کو یہ پیغام عالمی سطح پر پھیلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی حالانکہ فرانسیسی شہریوں کو کہیں زیادہ بہتر طریقے سے یہ پیغام پہنچایا جا سکتا تھا۔
فرانسیسی شہری جولیئن (فرضی نام) نے بھی پاکستان میں قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف تجویز ہے اس لیے میں ملک سے نہیں جاؤں گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اپنے ادارے کی طرف سے انہیں یورپ بھجوانے یا اسلام آباد میں ان کی رہائش کے باہر مسلح محافظ تعینات کرنے کی پیشکش بھی مسترد کر دی۔
وہ کہتے ہیں: ’کچھ بھی ہو اکتوبر، نومبر سے حالات میں اتارچڑھاؤ آ رہا ہے۔ اس لیے صورت حال کے پرامن ہونے کا انتظار کریں گے۔‘
دو ماہ سے بھی کم عرصے قبل پاکستان پہنچنے والے عالمی بینک کے کنسلٹنٹ لورینٹ سینو نے کہا کہ چوکس رہ کر ہی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خطرات عام پاکستانیوں کی جانب سے نہیں بلکہ صرف ٹی ایل پی کی طرف سے لاحق ہیں۔
ایک اور فرانسیسی شہری، جنہوں نے اپنا اور کمپنی کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط عائد کی، دو مرتبہ پانچ، پانچ سال کے لیے پاکستان میں رہ چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ’چونکہ میں طویل عرصے یہاں مقیم ہوں اس لیے واقعی مجھے خوف محسوس نہیں ہوا۔‘
تاہم اے ایف پی سے رابطے میں آنے والے وہ پہلے فرانسیسی شہری ہوں گے جو اپنی کمپنی کے حکم پر پاکستان چھوڑیں گے۔
سینو کے مطابق سفارت خانے کا پیغام پاکستان کے حوالے سے مزید منفی تاثر فرانس پہنچائے گا۔ ’دیانت داری سے کام لیا جائے تو پاکستان اس کا حقدار نہیں۔ یہ بہت شاندار ملک ہے جس کے لوگ پرکشش اور انتہائی مہربان ہیں۔‘
ٹی ایل پی نے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے پر عمل درآمد کروانے کے لیے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دے رکھی تھی۔
تاہم پیر کو لاہور پولیس نے تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کر لیا جس کے بعد ملک میں پرتشدد مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔
ان مظاہروں میں چار پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے جریدے شارلی ایبدو کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت کے حق کا دفاع کیا تھا، جس کے بعد پاکستان میں ٹی ایل پی نے کئی بار احتجاجی مظاہرہ کیا۔