بندوقوں کے بارے میں امریکہ کے جنون کو طویل عرصے سے دنیا بھر میں تجسس کے ساتھ دیکھا جاتا رہا ہے۔ بندوق بردار کاؤ بوائز سے لے کر ٹومی گنوں کے ساتھ سستے سوٹ میں مافیا کے لوگ اور عصر حاضر میں بیس بال کیپ میں گینگسٹرز تک جو زمین سے چمٹی سیڈان چلاتے ہیں انہوں نے امریکی برانڈ کی وضاحت کرنے والی فلموں اور موسیقی کو آباد کیا ہے۔ آنجہانی ریپ آرٹسٹ ایزی ای نے 1988 میں گایا تھا کہ ’کیونکہ میں تفریح کرنے والا گینگسٹا ہوں، کبھی بھی بندوق پیک کیے بغیر نہ جائیں۔‘
لیکن حالیہ برسوں میں ملک پر بندوقیں جو کثیر الجہتی تباہی لا رہی ہیں وہ بھی دنیا پر واضح ہوگیا ہے۔ انڈیاناپولس فیڈ ایکس دفتر میں 15 اپریل کو پیش آنے والا فائرنگ کا پانچ ہفتوں میں کم از کم چھٹا قتل عام تھا۔
اگرچہ امریکہ کو کرونا (کورونا) وبائی وائرس نے بڑے پیمانے پر بند کر دیا تھا، لیکن دو دہائیوں میں ملک میں بندوق کی مدد سے ہوئے تشدد کا سب سے مہلک سال 2020 تھا۔ گن وائلنس آرکائیو کے مطابق یکم جنوری سے اب تک امریکہ میں کم سے کم 147 بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ گذشتہ برس اسی مدت کے دوران 85 واقعات رونما ہوئے تھے۔
گذشتہ ہفتے شکاگو کے ایک پولیس اہلکار کی فائرنگ کے نتیجے میں سامنے آنے والی اس ویڈیو فوٹیج میں ایک 13 سالہ لڑکے کی موت ہوگئی تھی جس نے ہاتھ پولیس اہلکار کے حکم پر اٹھا لیے تھے جو سے ہالی وڈ کے پولیس اہلکاروں اور ڈاکوؤں کے ذہنوں پر اثرات ظاہر کرتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں امریکہ کا بیرون ملک تاثر متاثر ہوا ہے۔ یہ صورت حال ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد صدارت کے دوران ایک کم سطح کو پہنچ گئی تھی۔ امریکی تشدد اور سفری مشوروں کی سنسنی خیز خبروں کے ساتھ غیر ملکی افراد کو بندوق سے ممکنہ تباہی سے متعلق خبردار کیا گیا ہے۔ جو لوگ امریکہ کی خبروں سے اپنے آپ کو آگاہ رکھتے ہیں وہ اسے ایک نسبتا خطرناک ملک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہیں شدید تکلیف ہوتی ہے جب وہ امریکی سکولوں میں بچوں کو ’شوٹنگ کی مشقیں‘ کی کسی ماس شوٹنگ سے بچنے کی خاطر تربیت کرتے دیکھتے ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے 2017 کے ایک خطاب میں کہا تھا کہ ’امریکہ میں ہتھیاروں کا وسیع پیمانے پر استعمال ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ لیکن حکومت مافیا اور امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے غلبے کی وجہ سے آتشیں اسلحے کے استعمال کو غیر قانونی قرار دینے کی ہمت نہیں کرتی ہے۔‘
امریکہ میں بندوق کی مدد سے قتل عام کئی دہائیوں سے عالمی خبروں کی زینت بنے ہیں، کم از کم 1999 کے اس واقعے کے بعد سے جس میں رائفلز سے لیس دو نوعمر افراد نے کولوراڈو کے کولمبائن ہائی سکول پر دھاوا بول دیا تھا اور 12 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ لیکن سینکڑوں مسلح ’ملیشیا‘ افراد کے امریکی شہروں میں مارچ کے مناظر نے بیرون ملک لوگوں کو شدید جھٹکا پہنچایا۔ یہ باتیں شام اور عراق جیسی جگہوں پر ہی ہوتی ہیں۔ اگر ہتھیاروں کا مقابلہ کسی لاطینی امریکی، افریقی یا مشرق وسطی کے ملک میں ہو رہا ہوتا تو امریکی صحافی اسے ایک ناکام ریاست کے طور پر بیان کر رہے ہوتے۔
امریکہ اور یورپ میں رہائش پذیر ایک ٹیلی ویژن پروڈیوسر نے امریکی دائیں بازو کے مسلح گروہوں کے بڑھتے ہوئے تماشے کے رد عمل میں مجھ سے کہا، 'واہ۔‘ ’ردعمل اس طرح ہے، اچھا تو یہ صحیح سمت میں نہیں جا رہا ہے۔‘
عالمی خبر رساں ادارے جس طرح امریکی بندوق سے تشدد اور ثقافت کا تجزیہ اور جائزے لیتے ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر ٹیلی ویژن سٹیشن اور اخبارات بالکل ہی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں، اور اکثر امریکی یا امریکہ میں مقیم سکالرز اور صحافیوں سے رجوع کرتے ہیں یہ وضاحت حاصل کرنے کے لیے کہ امریکہ کیوں ایک ملک ہونے کے ناطے یہ برداشت کرسکتا ہے؟ جہاں پر نجی ملکیت میں لگ بھگ 40 کروڑ آتشیں اسلحے موجود ہے، اور جہاں مظالم تقریبا ہر ہفتہ ہوتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپین کے اخبار ایل منڈو کے واشنگٹن میں بیورو چیف پابلو پرڈو کا کہنا ہے کہ ’دنیا کے باقی حصوں میں لوگ سوچتے ہیں کہ امریکی پاگل ہیں۔ ایک بار پابلو پرڈو امریکی دارالحکومت کے نواح میں ایک بندوق میلے میں گئے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ شاٹ گن خریدنا ان کے لیے کتنا آسان ہے۔ وہ حیرت زدہ تھے۔’میں کچھ بھی دکھائے بغیر یہ کرنے کے قابل تھا۔ سیل فون خریدنا زیادہ پیچیدہ ہے۔ بینک اکاؤنٹ کھولنا زیادہ مشکل ہے۔‘
بیرون ملک بہت کم مبصرین امریکہ کے بندوق کنٹرول نافذ کرنے کے لیے قوانین میں تبدیلی سے انکار کو سمجھتے ہیں۔ برطانیہ میں ہنگر فورڈ میں ایک بندوق بردار کی طرف سے اگست 1987 میں ہنگامہ آرائی کے بعد جس میں 16 افراد ہلاک ہوئے، بندوق کے قوانین مزید سخت کر دیئے جس کے تحت نیم خودکار ہتھیاروں کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا تام بعض اقسام کی شاٹ گنز کی فروخت کو محدود کر دیا تھا۔ ایک عشرے کے بعد جب ایک شخص نے سکاٹش پرائمری سکول میں 16 بچوں اور ان کے استاد کو ہلاک کیا، یہاں بھی بندوق کے خلاف سخت قانون نافذ کر دیئے گئے۔ دسیوں ہزار مالکان سے اسلحہ جمع کر لیا گیا تھا۔
1996 میں آسٹریلیا میں اس قسم کے قتل عام کے دو واقعات کے بعد قدامت پسند حکومت نے خودکار اور نیم خودکار ہتھیاروں کی ملکیت کو محدود کر دیا اور 650،000 آتشیں اسلحہ واپس خرید لیا۔ نیوزی لینڈ میں دو مساجد میں قتل عام کے بعد طاقتور بندوق لابی کو ناکام بنا کر اپنے اسلحے کے قوانین کو ہفتوں میں ہی تبدیل کر دیا۔ نوو سکاٹیا میں 2020 کے قتل عام کے بعد کینیڈا نے بھی اسلحے کے قوانین سخت کر دیئے تھے۔
جب امریکی دوسری ترمیم، وہ آئینی شق جو اسلحے کو رکھنے کا حق دیتی ہے، بیرون ملک لوگ اس پر طنز کرتے ہیں، گویا امریکہ میں یا کہیں اور قوانین سیاسی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تبدیل نہیں کیے جاسکتے ہیں۔
استنبول میں مقیم 37 سالہ مصنف سنار کیپر کا، جو شمالی امریکہ میں رہ چکے ہیں، کہنا ہے کہ ’جن لوگوں کو میں جانتا ہوں ان کا اس بارے میں عمومی نظریہ یہ ہے کہ ہولی ش* امریکہ کے ساتھ ایسا کیا غلط ہے؟ میں جانتا ہوں کہ ترک، امریکی، کینیڈین، یورپی، افریقیوں کا بھی یہی نظریہ ہے۔ میں کسی ایک فرد کو نہیں جانتا جو سوچتا ہے کہ امریکہ نفسیاتی طور پر ٹھیک ہے۔‘
© The Independent